فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
لگادینے کوبھی آمادہ ہیں۔ (۴)عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ: یَقُوْلُ مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِيْ قَرْیَۃٍ وَلَابَدْوٍ لَاتُقَامُ فِیْهِمُ الصَّلَاۃُ إِلَّا اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ، فَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ؛ فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ مِنَ الْغَنَمِ الْقَاصِیَۃَ. (رواہ أحمد وأبوداود والنسائي وابن ماجہ وابن حبان في صحیحهما، والحاکم، وزاد في جامعہ: وَأَنَّ ذِئْبَ الإِنْسَانِ الشَّیْطَانُ، إِذَا خَلَا بِہٖ أَکَلَہٗ. کذا في الترغیب، ورقم لہ في الجامع الصغیر بالصحۃ، وصححہ الحاکم، وأقرہ علیہ الذهبي) ترجَمہ: حضورِ اکرم ﷺکاارشاد ہے کہ: جس گاؤں یاجنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو اُن پر شیطان مُسلَّط ہوجاتا ہے؛ اِس لیے جماعت کوضروری سمجھو، بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے، اور آدمیوں کابھیڑیا شیطان ہے۔ مُسلَّط: غالب۔ تَفاخُر: فخر۔ فائدہ: اِس سے معلوم ہوا کہ جولوگ کھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں، اگرتین آدمی ہوتو اُن کوجماعت سے نماز پڑھنا چاہیے؛ بلکہ دو کو بھی جماعت سے پڑھنا اَولیٰ ہے، کسان عام طور سے اوَّل تونماز پڑھتے ہی نہیں، کہ اُن کے لیے کھیتی کی مشغولی اپنے نزدیک کافی عُذر ہے، اور جوبہت دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں؛ حالاںکہ اگر چندکھیت والے بھی ایک جگہ جمع ہوکر پڑھیں توکتنی بڑی جماعت ہوجائے اور کتنا بڑاثواب حاصل کریں!چار پیسے کے واسطے گرمی، سردی، دھوپ، بارش؛ سب سے بے نیازہوکر دن بھر مشغول رہتے ہیں؛ لیکن اِتنا بڑا ثواب ضائع کرتے ہیں اور اِس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے؛ حالاںکہ یہ لوگ جنگل میں جماعت سے نمازپڑھیں تو اَور بھی زیادہ ثواب کاسبب ہوتا ہے، حتیٰ کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: پچاس نمازوں کاثواب ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب کوئی بکریاں چَرانے والا کسی پہاڑ کی جڑ میں، (یاجنگل میں)اذان کہتا ہے اورنمازپڑھنے لگتاہے، تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس سے بے حد خوش ہوتے ہیں، اور تعجُّب و تَفاخُر سے فرشتوں سے فرماتے ہیں: دیکھو جی! میرا بندہ اذان کہہ کرنمازپڑھنے لگا، یہ سب میرے ڈر کی وجہ سے کررہا ہے، مَیں نے اُس کی مغفرت کردی اور جنت کاداخلہ طے کردیا۔(ابوداود، باب الاذان فی السفر، حدیث: ۱۲۳۰، ۔۔۔۔) (۵)عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ یَصُوْمُ النَّهَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ وَلَایَشْهَدُ الْجَمَاعَۃَ وَلَاالْجُمُعَۃَ، فَقَالَ: هٰذَا فِيْ النَّارِ. (رواہ الترمذي موقوفا، کذا في الترغیب، وفي تنبیہ الغافلین: رُوِيَ عَن مُجَاهِدٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی ابنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: یَاابنَ عَبَّاسٍ! مَاتَقُولُ فِيْ رَجُلٍ؟ فذکرہ بلفظہ، زاد في اٰخرہ: فَاختَلَفَ فِیهِ شَهراً یَسأَلُہُ عَن ذَالِكَ وَهُوَیَقُولُ: هُوَفِي النَّارِ) ترجَمہ:حضرت عبداللہ بن عباس صسے کسی نے پوچھا کہ: ایک شخص دن بھرروزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے؛ مگر جمعہ اورجماعت میں شریک نہیںہوتا (اُس کے مُتعلِّق کیاحکم ہے؟) آپ نے فرمایا کہ: یہ شخص جہنَّمی ہے۔ فائدہ: گو ایک خاص زمانے تک سزا بھُگتنے کے بعد جہنَّم سے نکل آئے،