فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: قرآن شریف کو حِفظ کیا کرو؛ اِس لیے کہ حقتَعَالیٰ شَانُہٗاُس قلب کو عذاب نہیں فرماتے جس میں کلامِ پاک محفوظ ہو۔ یہ حدیث اپنے مضمون میں صاف اور نَص ہے۔ جو لوگ حفظِ قرآن شریف کوفُضول بتلاتے ہیں وہ خدارا ذرا اِن فضائل پر بھی غور کریں، کہ یہی ایک فضیلت ایسی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص کو حفظِ قرآن پر جان دے دینا چاہیے؛ اِس لیے کہ کون شخص ایسا ہوگا جس نے گناہ نہ کیے ہوں اور آگ کا مستحق نہ ہو؟۔ ’’شرحِ اِحیاء‘‘ میں اُن لوگوں کی فہرست میں جو قِیامت کے ہولناک اور وَحشت اثر دِن میں اللہ کے سایے کے نیچے رہیںگے، حضرت علیص کی حدیث سے بہ روایتِ ’’دَیلَمِی‘‘ نقل کیا ہے کہ: حاملینِ قرآن یعنی حُفَّاظ اللہ کے سایے کے نیچے انبیاء اور برگُزِیدہ لوگوں کے ساتھ ہوںگے۔ حافظِ قرآن کو اپنے خاندان کے دس پکّے جہنَّمیوں کی سِفارش کا حق ہونا (۱۳) عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَرَأَ القُراٰنَ فَاستَظْهَرَہٗ، فَأَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ، أَدخَلَہُ اللہُ الجَنَّۃَ، وَشَفَّعَہٗ فِي عَشَرَۃٍ مِن أَهلِ بَیتِہٖ، کُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ. (رواه أحمد والترمذي، وقال: هذا حدیث غریب، وحفص بن سلیمان الراوي لیس هو بالقوي، یضعف في الحدیث. ورواہ ابن ماجہ والدارمي) ترجَمہ: حضرت علیص نے حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیاہے کہ: جس شخص نے قرآن پڑھا پھر اُس کو حِفظ یاد کیا، اور اُس کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام، حقتَعَالیٰ شَانُہٗاُس کو جنَّت میں داخل فرماویں گے، اور اُس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اُس کی شَفاعت قبول فرماویںگے جن کے لیے جہنَّم واجب ہوچکی ہو۔ مُرتکِب کبائر: بڑے بڑے گناہ کرنے والے۔ فائدہ:دخولِ جنت ویسے تو ہر مومن کے لیے إِنْ شَاءَ اللہ ہے ہی، اگرچہ بداعمالیوں کی سزا بھُگت کر ہی کیوں نہ ہو؟؛ لیکن حُفَّاظ کے لیے یہ فضیلت ابتدائے دُخول کے اعتبار سے ہے۔ وہ دس شخص جن کے بارے میں شفاعت قبول فرمائی گئی وہ فُسَّاق وفُجَّار ہیں جو مُرتکِب کبائر کے ہیں؛ اِس لیے کہ کُفَّار کے بارے میں تو شفاعت ہے ہی نہیں، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا ارشاد ہے: ﴿إنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ، وَمَا لِلظّٰلِمِینَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ (مشرکین پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا، اور اُن کاٹھکانہ جہنَّم ہے، اور ظالمین کا کوئی مددگار نہیں)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِینَ اٰمَنُوْا أَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ﴾ الاٰیۃ:(نبی اور مسلمانوں کے لیے اِس کی گنجائش نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ رشتے دار ہوں)،وغیرہ وغیرہ نُصوص اِس مضمون میں صاف ہیں کہ، مشرکین کی مغفرت نہیں ہے؛ اِس لیے حُفَّاظ کی شفاعت سے اُن مسلمانوں کی شفاعت مراد ہے