فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(۸)حضرت ابن عمرسے سوال کہ: نمازِ قصر قرآن میں نہیں برادر زادے: بھتیجے۔ اَنجان: ناواقف۔صَراحتاً: کھُلَّم کھلا۔ فاسد: گندے۔ حضرت عبداللہ بن عمرصسے ایک شخص نے پوچھا کہ: قرآن شریف میں مُقِیم کی نماز کابھی ذکر ہے اورخوف کی نمازکابھی، مسافر کی نمازکاذکر نہیں؟ اُنھوں نے فرمایا کہ: برادر زادے! اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے حضورِ اقدس ﷺ کونبی بناکر بھیجا، ہم لوگ اَنجان تھے، کچھ نہیں جانتے تھے، بس جو ہم نے اُن کو کرتے دیکھا ہے وہ کریںگے۔ (شفاء) فائدہ: مقصود یہ ہے کہ ہرمسئلے کاصَراحتاً قرآن شریف میں ہونا ضروری نہیں، عمل کے واسطے حضورِاقدس ﷺ سے ثابت ہوجاناکافی ہے۔ خودحضورِ اقدس ﷺکاارشاد ہے کہ: ’’مجھے قرآن شریف عطاہوا اور اُس کی برابر اَوراحکام دیے گئے، عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ پیٹ بھرے لوگ اپنے گَدّوں پر بیٹھ کر کہیںگے کہ: بس قرآن شریف کومضبوط پکڑ لو، جو اِس میں احکام ہیں اُن پر عمل کرو‘‘۔(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، ص ۶۳۲) فائدہ: ’’پیٹ بھرے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اِس قِسم کے فاسد خَیال دولت کے نَشے سے ہی پیداہوتے ہیں۔ (۹)حضرت ابن مُغفَّل کا خَذْف کی وجہ سے کلام چھوڑ دینا خَذْف: ٹھیکری۔ تحمُّل: برداشت۔ عبداللہ بن مُغفَّل ص کا ایک نوعمر بھتیجہ خَذْف سے کھیل رہاتھا، اُنھوں نے دیکھا اور فرمایا کہ:بِرادرزادے! ایسا نہ کرو، حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ: ’’اِس سے فائدہ کچھ نہیں، نہ شکار ہوسکتا ہے نہ دشمن کونقصان پہنچایاجاسکتا ہے، اور اِتِّفاقاً کسی کے لگ جائے تو آنکھ پھوٹ جائے، دانت ٹوٹ جائے‘‘، بھتیجہ کم عمر تھا، اُس نے جب چچا کو غافل دیکھا تو پھر کھیلنے لگا، اُنھوں نے دیکھ لیا، فرمایا کہ: مَیں تجھے حضور ﷺ کا ارشاد سناتا ہوں، تُو پھر اُسی کام کو کرتا ہے؟ خداکی قَسم! تجھ سے کبھی بات نہیں کروںگا۔ ایک دوسرے قصے میں اِس کے بعدہے: خداکی قَسم! نہ تیرے جنازے میں شریک ہوںگا، نہ تیری عِیادت کروںگا۔ (ابنِ ماجہ، ص۳) فائدہ: ’’خَذْف‘‘ اِس کوکہتے ہیں کہ: انگوٹھے پرچھوٹی سی کنکری رکھ کر اُس کو انگلی سے پھینک دیاجائے، بچوں میں عام طور سے اِس طرح کھیلنے کامَرض ہوتا ہے، وہ ایسا تو ہوتا نہیں کہ اُس سے شکار ہوسکے، ہاں! آنکھ میں کسی کے اتفاقاً لگ جائے تو اُس کو زخمی کر ہی دے۔ حضرت عبداللہ بن مُغفَّل کو اِس کا تحمُّل نہ ہوسکا کہ حضورﷺ کا ارشاد سنانے کے بعد بھی وہ بچہ اُس