فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اور زبانیں چپ رہتی ہیں، اورجب اِس حالت پراُن کوپختگی مُیَسَّر ہوجاتی ہے تواِس کی وجہ سے وہ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں، تم لوگ اُن سے کہاں ہٹ گئے؟۔ وہْبؒ کہتے ہیں کہ: اِس کے بعد مَیں نے دو آدمیوں کوکبھی ایک جگہ جمع نہیں دیکھا۔ فائدہ: حضرت ابنِ عباس رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا اللہ کے خوف سے اِس قدر روتے تھے، کہ چہرے پر آنسوؤں کے ہروقت بہنے سے دونالیاں سی بن گئی تھیں۔ اوپرکے قصے میں حضرت ابن عباس رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا نے نیک کاموں پراہتمام کایہ ایک سَہل نُسخہ بتلایا، کہ اللہ کی عظمت اوراُس کی بَڑائی کاسوچ کیا جائے، کہ اِس کے بعدہرقِسم کانیک عمل سہل ہے، اورپھر وہ یقینا اِخلاص سے بھراہواہوگا؛ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں اگر تھوڑا سا وقت بھی ہم لوگ اِس سوچنے کی خاطر نکال لیں توکیا مشکل ہے!۔ رَعایا: محکوم لوگ۔ بینائی: آنکھ کی روشنی۔ عاجز: بے بس۔ گونگے: وہ شخص جو بول نہ سکے۔ فصیح: خوش بیان۔ (۸) تبوک کے سفر میں قومِ ثمود کی بستی پرگزر غزوۂ تبوک مشہورغزوہ ہے، اورنبیٔ اَکرم ﷺ کاآخری غزوہ ہے، حضورِاقدس ﷺ کو اطلاع ملی کہ ’’رُوم‘‘ کابادشاہ مدینۂ منوَّرہ پرحملہ کرنے کاارادہ کررہا ہے، اوربہت بڑا لشکر لے کر شام کے راستے سے مدینہ کوآرہاہے، اِس خبر پر۵؍رجب سن ؍۹ھ پنجشنبہ کو نبیٔ اَکرم ﷺ اُس کے مقابلے کے لیے مدینۂ طیبہ سے روانہ ہوگئے، چوں کہ زمانہ سخت گرمی کا تھا اور مقابلہ بھی سخت تھا؛اِس لیے حضورِ اقدسﷺ نے صاف اعلان فرما دیا تھا کہ: ’’ روم کے بادشاہ سے مقابلے کے لیے چلنا ہے، تیاری کرلی جائے‘‘ اور حضورِاقدس ﷺ نے خود اِس کے لیے چندہ فرمانا شروع کیا، یہی لڑائی ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیقص گھر کا سارا سامان لے آئے، اور جب اُن سے پوچھا کہ: گھر والوں کے لیے کیاچھوڑا؟ تو فرمایا کہ: ’’اُن کے لیے اللہ اوراُس کے رسول کو چھوڑ آیا‘‘ اورحضرت عمر صگھر کے پورے سامان میں سے آدھا لے آئے، جس کاقصہ۴؍ ’’باب نمبر۶‘‘ میں آتا ہے؛ اور حضرت عثمان غنیص نے ایک تہائی لشکرکاپوراسامان مُہَیّافرمایا،ا ور اِسی طرح ہرشخص اپنی حیثیت سے زیادہ ہی لایا، اِس کے باوجود چوںکہ عام طور سے تنگی تھی؛ اِس لیے دس دس آدمی ایک اونٹ پر تھے کہ نوبت بہ نوبت اُس پرسوارہوتے تھے، اِسی وجہ سے اِس لڑائی کانام’’جَیْشُ الْعُسْرَۃِ‘‘ (یعنی تنگی کا لشکر) بھی تھا؛ یہ لڑائی نہایت ہی سخت تھی کہ