فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
’’سَبَاحَۃُ الْفِکْر‘‘ اِسی مسئلے میںتصنیف فرمایا ہے، جس میں تقریباً پچاس حدیثیں ایسی ذکر فرمائی ہیں جن میںجَہر (پکار کر)ثابت ہوتا ہے؛ البتہ یہ ضروری اَمر ہے کہ: شرائط کے ساتھ اپنی حُدود کے اندر رہے، کسی کی اَذِیَّت کا سبب نہ ہو۔ (۱۶) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: سَبعَۃٌ یُظِلُّهُمُ اللہُ فِي ظِلِّہٖ یَومَ لَاظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ: اَلإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالشَّابُّ نَشَأَ فِي عِبَادَۃِ اللہِ، وَرَجُلٌ قَلبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللہِ اِجتَمَعَا عَلیٰ ذٰلِكَ وَتَفَرَّقَا عَلَیہِ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمرَأَۃٌ ذَاتَ مَنصَبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّيْ أَخَافُ اللہَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاهَا حَتّٰی لَاتَعلَمُ شِمَالُہٗ مَاتُنفِقُ یَمِینُہٗ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ. (رواہ البخاري ومسلم وغیرهما، کذا في الترغیب والمشکوۃ. وفي الجامع الصغیر بروایۃ مسلم عن أبي هریرۃ وأبي سعید معا، وذکر عدۃ طرقہ أخریٰ) ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: سات آدمی ہیں جن کو اللہجَلَّ شَانُہٗاپنے (رحمت کے) سایے میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اُس کے سایے کے سِوا کوئی سایہ نہ ہوگا: ایک عادل بادشاہ، دوسرے وہ جوان جو جوانی میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں اَٹک رہا ہو، چوتھے وہ دو شخص جن میں اللہ ہی کے واسطے محبت ہو، اِسی پر اُن کا اِجتِماع ہو اِسی پر جُدائی، پانچویں وہ شخص جس کو کوئی حَسِین شریف عورت اپنی طرف مُتوجَّہ کرے اور وہ کہہ دے کہ: مجھے اللہ کا ڈر مانع ہے، چھٹے وہ شخص جو ایسے مَخفِی طریق سے صدقہ کرے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو، ساتویں وہ شخص جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور آنسو بہنے لگیں۔ مَخفِی: پوشیدہ۔ دِیدہ ودَانِستہ: جان بوجھ کر۔ مَقُولہ: بات۔ دلبر:محبوب۔مَحو خَیال یار: دوست کے خَیال میں گم ہونا۔اَغیار: اللہ کے عِلاوہ۔ دَرکِنار: ایک طرف۔ اِلتِفات: توجُّہ۔مُضِر: نقصان دینے والا۔ مُیسّر: حاصل۔ فائدہ: آنسو بہنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دِیدہ ودَانِستہ اپنے مَعاصی اور گناہوں کو یاد کرکے رونے لگے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ، غلبۂ شوق میں بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکلنے لگیں۔ بہ روایتِ ثابت بُنانیؒ ایک بزرگ کا مَقُولہ نقل کیاہے، وہ فرماتے ہیں: مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میری کون سی دعا قبول ہوئی، لوگوں نے پوچھا کہ: کس طرح معلوم ہوجاتا ہے؟ فرمانے لگے کہ: جس دعا میں بدن کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں، اور دل دَھڑکنے لگتا ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں وہ دعا قبول ہوتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء۲؍۳۲۴) اُن سات آدمیوں میں جن کا ذکر حدیثِ پاک میں وارد ہوا ایک وہ شخص بھی ہے جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور رونے لگے، اِس شخص میں دو خوبیاں جمع ہیں اور دونوں اعلیٰ درجے کی ہیں: ایک اخلاص، کہ تنہائی میں اللہ کی یاد میں مشغول ہوا، دوسرا اللہ کا خوف یا شوق، کہ دونوں میں رونا آتا ہے، اور دونوں کمال ہیں: ہمارا کام ہے راتوں کو رونا یادِ دِلبَرمیں ء ہماری نیند ہے محوِ خَیالِ یار ہوجانا