فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کہہ دے؛ تاکہ بدلہ ہوجائے‘‘، مَیں نے کہنے سے انکار کیا تو اُنھوںنے فرمایا کہ: ’’یا تو کہہ لو؛ ورنہ مَیں حضورﷺسے جاکرعرض کروںگا‘‘ مَیںنے اِس پر بھی جوابی لفظ کہنے سے انکارکیا، وہ تواُٹھ کرچلے گئے؛ بنواَسلم کے کچھ لوگ آئے، اورکہنے لگے کہ: یہ بھی اچھی بات ہے کہ خودہی توزیادتی کی اورخود ہی اُلٹی حضور ﷺ سے شکایت کریں! مَیں نے کہا:تم جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ ابوبکرصدیق صہیں، اگریہ خَفاہوگئے تواللہ کا لاڈلا رسول ﷺ مجھ سے خَفا ہوجائے گا، اوراُس کی خَََفگی سے بَشارت: خوش خبری۔ خَفا: ناراض۔ خَََفگی: ناراضگی۔ اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ ناراض ہوجائیں گے، تو ربیعہ کی ہلاکت میں کیاتردُّد ہے! اِس کے بعد مَیںحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اورقصہ عرض کیا، حضورﷺنے فرمایا کہ: ’’ٹھیک ہے، تجھے جواب میں اور بدلے میں کہنانہیں چاہیے؛ البتہ اِس کے بدلے میں یوں کہہ کہ: اے ابوبکر! اللہ تمھیں مُعاف فرماویں‘‘۔ فائدہ:یہ ہے اللہ کاخوف کہ ایک معمولی سے کلمے میں حضرت ابوبکرصدیق ص کو بدلے کا اِس قدرفکر اوراہتمام ہوا کہ اوَّل خود درخواست کی، اور پھر حضورﷺکے واسطے سے اِس کاارادہ فرمایا کہ ربیعہ بدلہ لے لیں؛ آج ہم سینکڑوں باتیں ایک دوسرے کوکہہ دیتے ہیں، اِس کاخَیال بھی نہیں آتا کہ اِس کاآخرت میں بدلہ بھی لیاجائے گا، یاحساب کتاب بھی ہوگا۔ (۶)حضرت عمرکاخوفِ الٰہی حضرت عمرص بَسااوقات ایک تِنکا ہاتھ میں لیتے اورفرماتے: ’’کاش!مَیں یہ تنکاہوتا‘‘ کبھی فرماتے: ’’کاش! مجھے میری ماں نے جَناہی نہ ہوتا‘‘۔ ایک مرتبہ کسی کام میں مشغول تھے، ایک شخص آیا، اورکہنے لگا کہ: فُلاں شخص نے مجھ پرظُلم کیا ہے، آپ چل کر مجھے بدلہ دِلوا دیجیے، آپ صنے اُس کے ایک دُرّہ مار دیا، کہ جب مَیں اِس کام کے لیے بیٹھتا ہوں اُس وقت تو آتے نہیں، جب مَیں دوسرے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہوں تو آکرکہتے ہیں کہ: بدلہ دِلوا، وہ شخص چلا گیا،آپ نے آدمی بھیج کر اُس کو بُلوایا، اوردُرّہ اُس کودے کرفرمایا کہ: ’’بدلہ لے لو‘‘ اُس نے عرض کیا کہ: مَیں نے اللہ کے واسطے معاف کیا، گھرتشریف لائے، دو رکعت نمازپڑھی، اُس کے بعداپنے آپ کوخِطاب کرکے فرمایا: اے عمر! تُوکمینہ تھا، اللہ نے تجھ کو اونچا کیا، تُوگُمراہ تھا، اللہ نے تجھ کوہدایت کی، تُوذلیل تھا، اللہ نے تجھے عزت دی،