فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مُسلَّط:مقرر۔ مانِع:رُکاوَٹ۔ فائدہ:یعنی مَیں نے جو قَسم دے کر پوچھا اُس سے مقصود اِہتِمام اور تاکید تھی، کہ ممکن ہے کوئی اَور خاص بات بھی اِس کے عِلاوہ ہو، اور وہ بات اللہجَلَّ شَانُہٗکے فخر کا سبب ہو، اب معلوم ہوگیا کہ صرف یہ تذکرہ ہی سببِ فخر ہے۔ کس قدر خوش قسمت تھے وہ لوگ جن کی عبادتیں مقبول تھیں! اور اُن کی حَمد وثَنا پر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے فَخر کی خوش خبری اُن کو نبی ﷺ کی زبان سے دنیا ہی میں معلوم ہوجاتی تھی؛ اور کیوں نہ ہوتا کہ اُن حضرات کے کارنامے اِسی کے مُستَحق تھے۔ اُن کے کارناموں کا مختصر تذکرہ مَیں اپنے رسالہ ’’حکایاتِ صحابہ ث‘‘ میں نمونے کے طور پر لکھ چکا ہوں۔ مُلَّا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ: فخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: حقتَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: ’’دیکھو! یہ لوگ باوجودیکہ نفس اُن کے ساتھ ہے، شیطان اُن پر مُسلَّط ہے، شَہوتیں اُن میں موجودہیں، دنیا کی ضرورتیں اُن کے پیچھے لگی ہوئی ہیں؛ اِن سب کے باوجود اُن سب کے مقابلے میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں، اور اِتنی کثرت سے ہٹانے والی چیزوں کے باوجود میرے ذکر سے نہیں ہٹتے، تمھارا ذکر وتسبیح -اِس لحاظ سے کہ تمھارے لیے کوئی مانِع بھی اُن میں سے نہیں ہے- اُن کے مقابلے میں کوئی چیز نہیںہے‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب إلیہ،الفصل الثالث،۵؍۶۹) (۱۰) عَن أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَا مِن قَومٍ اِجتَمَعُوْا یَذْکُرُونَ اللہَ لَایُرِیدُونَ بِذٰلِكَ إِلَّا وَجهَہٗ؛ إِلَّا نَادَاهُمْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قُومُوا مَغفُوْراً لَکُمْ، قَدْ بَدَّلْتُ سَیِّئَاتِکُمْ حَسَنَاتٍ. (أخرجہ أحمد والبزار وأبو یعلیٰ والطبراني. وأخرجہ الطبراني عن سهل بن الحنظلیۃ أیضا، وأخرجہ البیهقي عن عبداللہ بن مغفل، وزاد: وَمَا مِنْ قَومٍ اِجتَمَعُوا فِي مَجلِسٍ فَتَفَرَّقُوا وَلَم یَذکُرُوا اللہَ؛ إِلَّا کَانَ ذٰلِكَ عَلَیهِمْ حَسْرَۃً یَومَ القِیَامَۃِ. کذا في الدر، قال المنذري: رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط، ورواتہ محتج بهم في الصحیح. وفي الباب عن أبي هریرۃ عند أحمد، وابن حبان وغیرهما؛ وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم في موضع، وعلیٰ شرط البخاري في موضع أخریٰ. وعزا السیوطي في الجامع حدیث سهل إلی الطبراني، والبیهقي في الشعب والضیاء؛ ورقم لہ بالحسن. وفي الباب روایات ذکرها في مجمع الزوائد) ترجَمہ:حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو بھی لوگ اللہ کے ذکر کے لیے مُجتَمع ہوں اور اُن کا مقصود صرف اللہ ہی کی رَضا ہو، تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ: تم لوگ بخش دیے گئے، اور تمھاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئی۔ دوسری حدیث میں ہے: اِس کے بِالمُقابل جو اجتماع ایسا ہو کہ اُس میں اللہ پاک کا کوئی ذکر ہو ہی نہیں، تو یہ اِجتِماع قِیامت کے دن حَسرت وافسوس کا سبب ہوگا۔ اِضاعت: ضائع کرنا۔ راہ گِیر: مسافر۔ پاسَنگ: ترازو کے پلڑوں کی کمی بیشی کو پورا کرنے کی غرض سے جو وزن ترازو کی ڈنڈی سے باندھا جاتا ہے۔سَیِّئات: بُرائیاں۔ وَابَستہ: متعلِّق۔تَوضِیح: وَضاحت۔ ضَربُ المَثَل: کہاوَت کی طرح مشہور۔ جَبَل گَردَد جِبِلَّت نہ گَردَد: پہاڑ بدل سکتا ہے؛ لیکن عادت نہیں بدل سکتی۔ ماخوذ: لیا گیا۔ فائدہ:یعنی اِس اجتماع کی بے برکتی اوراِضاعت پر حَسرت ہوگی، اور کیا بعید ہے کہ وَبال کا سبب کسی وجہ سے بن جائے!۔