فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ کے راستے میں خرچ کرو؛ اِس لیے وہ اللہ کے راستے میں دیتا ہوں، آپ جیسا مناسب سمجھیں اُس کے موافق اُس کوخرچ فرمادیں، حضورﷺنے بہت زیادہ مُسرَّت کااظہار فرمایا، اور فرمایاکہ: ’’بہت ہی عمدہ مال ہے، مَیں یہ مناسب سمجھتاہوں کہ اُس کو اپنے اہلِ قَرابت میں تقسیم کردو‘‘، ابوطلحہص نے اُس کو اپنے رشتے داروں میں تقسیم فرما دیا۔ (دُرِّمنثور،ج۲؍ ۸۹) (بخاری، ۱؍ ۳۸۸) خَفا: ناراض۔نام ونُمود: شُہرت۔ فائدہ:ہم بھی اپنا کوئی محبوب ترین مال،جائداد کوئی ایک آدھ وعظ سن کر،قرآنِ پاک کی کوئی آیت پڑھ کر یاسن کراِس طرح بے دھڑک خیرات کردیتے ہیں؟ اگروَقف وغیرہ کرنے کا خیال بھی آتا ہے توزندگی سے مایوس ہوجانے کے بعد، یاوارثوں سے خَفاہوکر اُن کو محروم کرنے کی نیت سے، اور برس کے برس اِس سوچ میںلگادیتے ہیں کہ کوئی صورت ایسی پیداہوجائے کہ میری زندگی میں تومیرے ہی کام آئے، بعد میں جو ہو وہ ہوتارہے، ہاں! نام ونُمود کی کوئی چیزہو، بیاہ شادی کی تَقرِیب ہو،توسُودی قرض سے بھی اِنکار نہیں۔ (۱۰)حضرت ابوذر صکااپنے خادم کوتنبیہ فرمانا زاہِد: دنیا سے بے رغبت۔ ناپُواں: کمزورو۔ خبرگیری: دیکھ ریکھ۔ اِستفادہ: فائدہ حاصل ۔ کارآمد:کام میں آنے والا۔ مُطِیع:اطاعت کرنے والا۔حسبِ وعدہ:وعدہ کے مطابق۔ تعمیلِ ارشاد کی: حکم کو پورا کرنا۔ حضرت ابوذر غِفَاری ص مشہورصحابی ہیں، جن کے اسلام لانے کاقصہ باب؍۱کے ۵؍ پر گزر چکا، یہ بڑے زاہِد لوگوں میں تھے، مال نہ اپنے پاس جمع رکھتے تھے نہ یہ چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا جمع رکھے، مالدارلوگوں سے ہمیشہ لڑائی رہتی تھی؛ اِس لیے حضرت عثمان ص کے حکم سے ’’رَبذہ‘‘ میں رہنے لگے تھے، جو جنگل میں ایک معمولی سی آبادی تھی۔ حضرت ابوذَرص کے پاس چند اونٹ تھے، اور ایک ناپُواں ضعیف سا چَرواہا تھا جو اُن کی خبرگیری کرتاتھا، اِسی پر گزر تھا۔ ایک شخص قبیلۂ بنو سُلَیم کے خدمت میں حاضرہوئے، اور یہ تمناظاہر کی کہ مَیں آپ کی خدمت میں رہناچاہتا ہوں؛ تاکہ آپ کے فُیوض سے اِستفادہ کروں، مَیں آپ کے چَرواہے کی مدد کرتا رہوںگا، اور آپ کی برکات سے فائدہ بھی حاصل کرتا رہوںگا، حضرت ابوذرص نے فرمایا کہ: ’’میرا دوست وہ ہے جو میری اِطاعت کرے، اگرتم بھی میری اِطاعت کے لیے تیار ہو شوق سے رہو، کہنانہ مانو تو تمھاری ضرورت نہیں‘‘، سُلیمی صاحب نے عرض کیا: کس چیز میں آپ اپنی اِطاعت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ: ’’جب مَیں اپنے مال میں سے