فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فائدہ:یہ مضمون کئی صحابہ ث سے مُتعدِّد احادیث میں نقل کیا گیا ہے۔ ’’بخ بخ‘‘ بڑے سُرور اور فَرحت کاکلمہ ہے، جس چیز کو حضورِ اقدس ﷺ اِس خوشی اور مَسرَّت سے ارشاد فرما رہے ہوں، عطا فرمارہے ہوں، کیا محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے ذمے نہیں ہے کہ اِن کلموں پر مَرمِٹیں؟ حضورﷺ کی اِس خوشی کی قدر دَانی اور اِس کا اِستِقبال یہی ہے۔ (۱۲) عَن سُلَیمَانَ بنِ یَسَارٍ عَن رَجُلٍ مِنَ الأَنصَارِ، أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ: قَالَ نُوحٌ لِابنِہٖ: إِنِّي مُوصِیكَ بِوَصِیَّۃٍ، وَقَاصِرُهَا لِکَي لَاتَنسَاهَا، أُوصِیكَ بِإثنَینِ وَأَنهَاكَ عَن إِثنَینِ: أَمَّا الَّتِي أُوصِیكَ بِهِمَا فَیَستَبْشِرُ اللہُ بِهِمَا وَصَالِحُ خَلقِہٖ، وَهُمَا یُکثِرَانِ الوُلُوجَ عَلَی اللہِ، أُوصِیكَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ؛ فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ لَو کَانَتَا حَلَقَۃً قَصَمَتْهُمَا وَلَوْ کَانَتَا فِي کَفَّۃٍ وَزَنَتْهُمَا، وَأُوصِیكَ بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ؛ فَإِنَّهُمَا صَلَاۃُ الخَلقِ، وَبِهَا یُرزَقُ الخَلقُ، ﴿وَإِن مِن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِن لَاتَفْقَهُونَ تَسبِیحَهُم، إِنَّہٗ کَانَ حَلِیماً غَفُوراً﴾؛ وَأَمَّا اللَّتَانِ أَنهَاكَ عَنهُمَا فَیَحتَجِبُ اللہُ مِنهُمَا وَصَالِحُ خَلقِہٖ، أَنهَاكَ عَنِ الشِّركِ وَالکِبْرِ. (رواہ النسائي واللفظ لہ، والبزار والحاکم من حدیث عبداللہ بن عمرو، قال: صحیح الإسناد؛ کذا في الترغیب. قلت: وقد تقدم في بیان التهلیل حدیث عبداللہ بن عمرو مرفوعا، وتقدم فیہ أیضا ما في الباب، وتقدم في الاٰیات قولہ عز اسمہ: ﴿وَإِن مِن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ﴾ الاٰیۃ. وأخرج ابن جریر وابن أبي حاتم وأبو الشیخ في العظمۃ عن جابر مرفوعاً: ’’أَلَا أُخبِرُکُم بِشَيْئٍ أَمَرَ بِہٖ نُوحٌ ابنَہٗ؟ إِنَّ نُوحاً قَالَ لِابنِہٖ: یَابُنَيَّ! اٰمُرُكَ أَن تَقُولَ: سُبحَانَ اللہِ؛ فَإنَّهَاصَلَاۃُ الخَلقِ، وَتَسْبِیْحُ الخَلقِ، وَبِهَا یُرزَقُ الخَلقُ‘‘. وأخرج أحمد وابن مردویہ عن ابن عمر مرفوعاً: ’’أَنَّ نُوحاً لَمَّا حَضَرَتْہُ الوَفَاۃُ قَالَ لِابنَیْہٖ: اٰمُرُکُمَا بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ؛ فَإِنَّهَا صَلَاۃُ کُلِّ شَيْئٍ، وَبِهَا یُرزَقُ کُلُّ شَيْئٍ‘‘، کذا في الدر) ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: حضرت نوح ںنے اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ: مَیں تمھیں وَصِیَّت کرتاہوں، اور اِس خَیال سے کہ بھول نہ جاؤ نہایت مختصر کہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ: دو کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اور دوکاموںسے روکتا ہوں، جن دوکاموں کے کرنے کی وصیت کرتا ہوں وہ دونوں ایسے ہیں کہ اللہ داُن سے نہایت خوش ہوتے ہیں، اور اللہ کی نیک مخلوق اُن سے خوش ہوتی ہے، اُن دونوں کاموں کی اللہ کے یہاں رَسائی (اور مَقبولِیَّت) بھی بہت زیادہ ہے، اُن دو میں سے ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، کہ اگر تمام آسمان ایک حلقہ ہوجائیں توبھی یہ پاک کلمہ اُن کو توڑکر آسمان پرجائے بغیر نہ رہے، اور اگر تمام آسمان وزمین کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اوردوسرے میں یہ پا ک کلمہ ہو تب بھی وہی پلڑا جھک جائے گا، اور دوسرا کام جو کرنا ہے وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ کا پڑھنا ہے، کہ یہ کلمہ ساری مخلوق کی عبادت ہے، اور اِسی کی برکت سے تمام مخلوق کو روزی دی جاتی ہے، کوئی بھی چیز مخلوق میں ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح نہ کرتی ہو؛ مگر تم لوگ اُن کا کلام سمجھتے نہیں ہو۔ اور جن دوچیزوں سے منع کرتا ہوں وہ شرک اور تکبُّر ہے، کہ اِن دونوں کی وجہ سے اللہ سے حِجاب ہوجاتا ہے اور اللہ کی نیک مخلوق سے حجاب ہوجاتاہے۔ رَسائی: پہنچ۔ حِجاب: پردہ،آڑ۔ ثَرید: ایک قِسم کا کھانا۔ بہ درجۂ اَتَم: پورے طور پر۔ جَمادات: بے جان چیزیں۔ مُوجِبِ قُرب: قریب کرنے والی۔ مُضِر: نقصان دینے والا۔ مُبتدی: نیا نیا راہِ سلوک میں لگا ہوا شخص۔ مانِع: رُکاوَٹ۔ مَبادا: ایسا نہ ہو۔ تکدُّر: دل کی پریشانی۔ حِسِّی: محسوس ہونے والا۔ لَہو ولَعِب: سَیر تماشہ۔ زائل: ختم۔ مُتَعَفِّن: بدبو دار۔ تردُّد: شک۔ فائدہ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے بیان میں بھی اِس حدیث کامضمون گزرچکا ہے۔ تسبیح کے مُتعلِّق جو ارشاد اِس حدیث میں ہے قرآنِ پاک کی آیات میں بھی گزر چکا