فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بندکردیا، جوقافلہ اُدھر کو جاتا اُس سے مقابلہ کرتے اور لڑتے،حتی کہ کُفَّارِمکہ نے پریشان ہوکر حضورﷺ کی خدمت میں عاجزی اور مِنَّت کرکے اللہ کا اور رشتے داری کاواسطہ دے کر آدمی بھیجا، کہ اِس بے سِری جماعت کوآپ اپنے پاس بُلالیں، کہ یہ مُعاہَدے میں توداخل ہوجائیں اور ہمارے لیے آنے جانے کا راستہ کھلے۔لکھا ہے کہ: حضورﷺ کا اجازت نامہ جب اُن حضرات کے پاس پہنچا ہے تو ابوبصیر ص مَرَضُ الموت میں گرفتار تھے، حضورﷺکا والا نامہ ہاتھ میں تھاکہ اِسی حالت میںانتقال فرمایا۔رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ. (بخاری، کتاب الشروط، ۱؍۳۸۰، ۳۸۱۔ وفتح الباری، کتاب الشروط، ۵؍۴۱۲) فائدہ:آدمی اگراپنے دین پرپَکَّاہو-بشرطے کہ دین بھی سچاہو- توبڑی سے بڑی طاقت اُس کونہیں ہٹاسکتی، اورمسلمان کی مدد کا تو اللہ کاوعدہ ہے بشرطے کہ وہ مسلمان ہو۔ (۴)حضرت بلال حبشی کااِسلام اورمَصائب حضرت بلال حبشی ص مشہور صحابی ہے، جومسجدِ نبوی ﷺ کے ہمیشہ مُؤذِّن رہے، ناطِقہ بندکردینا: تنگ کر دینا۔ مِنَّت: خوشامد۔ بے سِری: بدچلن، آوارہ۔ مَرَضُ الموت: جان لیوا بیماری۔ والا نامہ: بلند مرتبہ آدمی کا خط۔ شروع میں ایک کافر کے غلام تھے، اسلام لے آئے جس کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں،اُمَّیہ بن خَلف -جومسلمانوں کاسخت دشمن تھا- اِن کوسخت گرمی میں دوپہر کے وقت تَپتی ہوئی ریت پر سیدھا لِٹاکر اُن کے سینے پر پتھر کی بڑی چَٹان رکھ دیتاتھا؛ تاکہ وہ حرکت نہ کرسکیں، اور کہتاتھا کہ: ’’یا اِس حال میں مَرجائیں، اورزندگی چاہیں تواسلام سے ہٹ جائیں‘‘؛مگروہ اِس حالت میں بھی ’’اَحَد اَحَد‘‘ کہتے تھے، یعنی معبود ایک ہی ہے۔ رات کوزنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے تھے، اوراَگلے دن اُن زخموں کوگرم زمین پرڈال کر اَورزیادہ زخمی کیا جاتا؛ تاکہ بے قرارہوکر اسلام سے پھرجاویں، یا تڑپ تڑپ کر مرجائیں۔ عذاب دینے والے اُکتا جاتے: کبھی ابوجہل کانمبرآتا، کبھی اُمَیَّہ بن خَلف کا، کبھی اَوروں کا؛ اورہرشخص اِس کی کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کردے۔ حضرت ابوبکر صدیق صنے اِس حالت میں دیکھاتو اُن کو خریدکر آزاد فرمایا۔ فائدہ: چوں کہ عرب کے بُت پَرست اپنے بتوں کو بھی معبود کہتے تھے؛ اِس لیے اُن کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی، جس کی وجہ سے حضرت بلال ص کی زبان پر ’’ایک ہی ایک‘‘ کا وِرد تھا۔ یہ تعلُّق اور عِشق کی بات