فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے ہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی تمھارا تذکرہ کرنے والا اللہ کے پاس موجود ہوجو تمھارا ذکرِ خیر کرتا رہے؟۔ حُکَّام رَس: بادشاہوں تک پہنچے ہوئے۔ وائسِرائے: بادشاہ کا نائب۔ مَول: خریدنا۔ بینکا: ٹیڑھا۔ وَقیع: عظمت والا۔ فائدہ: جولوگ حُکَّام رَس ہیں، کرسی نَشیں کہلاتے ہیں، کوئی اُن سے پوچھے کہ: بادشاہ نہیں، وزیر نہیں، وائسِرائے کو بھی چھوڑ دیجیے، کسی گورنر کے یہاں اُن کی تعریف جائے، اُن کا ذکرِ خیر آجائے، پھُولے نہیں سَماتے، دماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے؛ حالاںکہ اِس تذکرے سے نہ تو دِین کا نفع نہ دنیا کا، دین کانفع نہ ہونا تو ظاہر اور کھُلا ہوا ہے، اور دنیا کا نفع نہ ہونا اِس وجہ سے کہ شاید جتنا نفع اِس قِسم کے تذکروں سے ہوتا ہو اُس سے زیادہ نقصان اِس نوع کے مرتبے اور تذکرے حاصل کرنے میں پہنچ جاتا ہے، جائدادیں فروخت کرکے سودی قرض لے کر ایسے مرتبے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مُفت کی عَداوَتیں مَول لی جاتی ہیں، اور ہر قِسم کی ذِلَّتیں برداشت کی جاتی ہے۔ اِلکشنوں کے منظر سب کے سامنے ہیں، کیا کیا کرنا پڑتا ہے؟ اِس کے بِالمُقابل اللہدکے عرش پر تذکرہ، مالکُ المُلک کے حضور میں تذکرہ، اُس پاک ذات کے یہاں تذکرہ جس کے قبضے میں دین اور دنیا اور سارے جہانوں کی ہر چیز ہے، اُس قدرت والے کے یہاں تذکرہ جس کے قبضے میں بادشاہوں کے دل ہیں، حاکموں کے اِختیارات اُس کے اِختیار میں ہیں، نفع اورنقصان کا واحد مالک وہی ہے، سارے جہان کے تمام آدمی: حاکم ومحکوم، بادشاہ ورعایا کسی کو نقصان پہنچانا چاہیں اور وہ مالکُ المُلک نہ چاہے تو کوئی بال بھی بینکا نہیں کرسکتا، ساری مخلوق کسی کو نفع پہنچانا چاہے اور اُس کی رَضا نہ ہوتو ایک قَطرہ پانی کا نہیں پلا سکتی، ایسی پاک ذات کے یہاں اپنا ذکرِ خیر ہو، کوئی دولت دنیا کی اُس کا مُقابلہ کرسکتی ہے؟ کوئی عزت دنیا کی -خواہ کتنی ہی بڑی ہوجائے- اِس کی برابری کرسکتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، اور اِس کے مقابلے میں دنیا کی کسی عزت کو اگر وَقیع سمجھاجائے تو کیا اپنے اوپر ظلم نہیں؟۔ (۱۸) عَن یَسِیرَۃَ -وَکَانَت مِنَ المُهَاجِرَاتِ- قَالَت: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِﷺ: عَلَیکُنَّ بِالتَّسبِیحِ وَالتَّهلِیلِ وَالتَّقدِیسِ، وَاعْقِدنَ بِالأَنَامِلِ، فَإِنَّهُنَّ مَسئُولَاتٌ مُستَنْطِقَاتٌ، وَلَاتَغفَلنَ فَتُنسِینَ الرَّحمَۃَ. (رواہ الترمذي وأبوداود، کذا في المشکاۃ؛ وفي المنهل: أخرجہ أیضا أحمد والحاکم. اھ وقال الذهبي في تلخصیہ: صحیح، وکذا رقم لہ بالصحۃ في الجامع الصغیر، وبسط صاحب الاتحاف في تخریجہ. ’’وَقَالَ عَبدُاللہِ بنِ عَمروٍ رَأَیتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَعقِدُ التَّسبِیحَ‘‘، رواہ أبوداود والنسائي والترمذي وحسنہ والحاکم؛ کذا في الاتحاف وبسط في تخریجہ، ثم قال: قال الحافظ: معنی العقد المذکور في الحدیث إحصاء العدد، وهو اصطلاح العرب بوضع بعض الأنامل علی بعض عقد أنملۃ أخریٰ، فالاٰحاد والعشرات بالیمین، والمئون والاٰلاف بالیسار) ترجَمہ: حضرت یسیرہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا-جو ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے ہیں- فرماتی ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اپنے اوپر تسبیح ( سُبْحَانَ اللہِ)کہنا، اور تہلیل (لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُپڑھنا)، اور تَقدِیس (اللہ کی پاکی بیان کرنا، مثلاً: سُبحَانَ المَلِكِ القُدُّوسِپڑھنا یا سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ