فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جماعتیں جو تقلیلِ طَعام کی وجہ سے کسی دِینی کام میں اَہمیَّت کے ساتھ مشغول نہ ہوسکیں۔ نبیٔ کریم ﷺ نے ایک مرتبہ جہاد کو تشریف لے جاتے ہوئے اعلان فرمادیا کہ: سفر میں روزہ نیکی نہیں؛ حالاںکہ رمَضانُ المبارک کا روزہ تھا؛ مگر اِس جگہ جہاد کاتَقابُل آپڑا تھا؛ البتہ جس جگہ کسی ایسے دِینی کام میں جو روزے سے زیادہ اہم ہو، ضُعف اور کَسل رَوَا نہ ہو،وہاں تقلیلِ طَعام ہی مناسب ہے۔ شرحِ ’’اِقناع‘‘ میںعلاَّمہ شَعرانیؒ نے نقل کیا ہے کہ: ہم سے اِس پر عَہد لیے گئے کہ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں۔ بِالخُصوص رمَضانُ المبارک کی راتوں میں بہتر یہ ہے کہ، رمَضان کے کھانے میں غیرِرمَضان سے کچھ تَقلِیل کرے؛ اِس لیے کہ اِفطار وسحر میں جو شخص پیٹ بھر کر کھائے اُس کاروزہ ہی کیا ہے!۔ مَشائخ نے کہا ہے کہ: جو شخص رمَضان میں بھوکا رہے آئندہ رمَضان تک تمام سال شیطان کے زور سے محفوظ رہتا ہے۔ اَور بھی بہت سے مَشائخ سے اِس باب میں شِدَّت منقول ہے: شرحِ اِحیاء میں ’’عوارف‘‘ سے نقل کیاہے کہ: سَہَل بن عبداللہ تَستَریؒ پندرہ روز میں ایک مرتبہ کھانا تناوُل فرماتے تھے، اوررمَضانُ المبارک میں ایک لقمہ؛ البتہ روزانہ اتِّباعِ سنت کی وجہ سے محض پانی سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ حضرت جنیدؒ ہمیشہ روزہ رکھتے؛ لیکن اللہ والے دوستوں میں سے کوئی آتا تو اُس کی وجہ سے روزہ افطار فرماتے، اور فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ایسے دوستوں کے ساتھ کھانے کی فضیلت کچھ روزے کی فضیلت سے کم نہیں‘‘۔ اَور بھی سَلَف کے ہزاروں واقعات اِس کی شہادت دیتے ہیں کہ، وہ کھانے کی کمی کے ساتھ نفس کی تادِیب کرتے تھے؛ مگر شرط وہی ہے کہ: اِس کی وجہ سے اَور دِینی اہم اُمُور میں نقصان نہ ہو۔ (۸) عَنْ أبِي هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ إلَّا الْجُوْعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ إلَّا السَّهْرُ. (رواہ ابن ماجہ واللفظ لہ، والنسائي، وابن خزیمۃ فيصحیحہ، والحاکم، وقال: علیٰ شرط البخاري؛ ذکر لفظهما المنذري في الترغیب بمعناہ) ترجَمہ:حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو روزے کے ثَمرات میں بجُز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیںکہ اُن کو رات کے جاگنے (کی مَشقَّت)کے سِوا کچھ بھی نہ مِلا۔ شب بیدار: رات کو جاگنے والے۔ اَحتراز: بچنا۔ جامِع: گھیرنے والا،جمع کرنے والا۔ تَفرِیحاً: دل لگی سے۔ حَماقَت: بے وقوفی۔ رِیا: دِکھلاوا۔ فائدہ:عُلَما کے اِس حدیث کی شَرح میں چند اَقوال ہیں: اوَّل یہ کہ، اِس سے وہ شخص مراد ہے جو دن بھرروزہ رکھ کر مالِ حرام سے افطار کرتا ہے، کہ جتنا ثواب روزے کا ہوا تھا اُس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہوگیا، اور دن بھر بھوکا رہنے کے سِوا اَور کچھ نہ ملا۔