فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے تھے، اور وہ بالاتفاق اکیسویں شب سے شروع ہوتا تھا؛ اِس لیے بھی جَمہور کا قول: ’’اکیسویں رات سے طاق راتوں میں قوِی احتمال ہے‘‘ زیادہ راجح ہے، اگرچہ احتمال اَور راتوں میں بھی ہے، اور دونوں قولوں پر تلاش جب ممکن ہے کہ، بیسویں شَب سے لے کرعید کی رات تک ہر رات میں جاگتا رہے اور شبِ قدر کی فکر میں لگا رہے، دس گیارہ راتیں کوئی ایسی اہم یامشکل چیز نہیں جن کو گزار دینا اُس شخص کے لیے کچھ مشکل ہو جو ثواب کی امید رکھتا ہو: عُرفی اگر بگِریہ مُیسَّر شُدے وِصال ء صَد سال می تَواں بہ تمنَّا گِریستَن (۵) عَن عُبَادَۃَ بنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّﷺ لِیُخْبِرَنَا بِلَیلَۃِ القَدرِ، فَتَلَاحیٰ رَجُلَانِ مِنَ المُسلِمِینَ، فَقَالَ: خَرَجتُ لِأُخبِرَکُم بِلَیلَۃِ القَدرِ فَتَلَاحیٰ فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ، وَعَسیٰ أَنْ یَکُوْنَ خَیراً لَکُمْ؛ فَالتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالخَامِسَۃِ. (مشکوۃ عن البخاري) ترجَمہ:حضرت عُبادَہص کہتے ہیں کہ: نبیٔ کریم ﷺ اِس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قدر کی اِطِّلاع فرماویں؛ مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، حضرت ﷺ نے فرمایا کہ: مَیں اِس لیے آیا تھا کہ تمھیں شبِ قدر کی خبر دوں؛ مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا کہ جس کی وجہ سے اِس کی تعیین اُٹھا لی گئی، کیابعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو؛ لِہٰذا اب اِس رات کو نوِّیں اور ساتوِیں اور پانچوِیں رات میں تلاش کرو۔ آبروریزی: بے عزتی۔ آبرو: عزت۔ نِزاع: جھگڑا۔ بدیہی: بالکل واضح۔ پَیشی: حضوری۔ خَلقَت: مخلوق۔ اِحاطے: شمار کرنا۔ شُرَفا: بزرگ۔ لَبریز: بھرا ہوا۔ حِمایت: طرف داری۔ دَانابِینا: جاننے والا دیکھنے والا۔وَجاہت: عزت۔ کسرِشان: مرتبہ کی کمی۔ بَڑائی: تکبُّر۔ اِقرارِ عِجز: عاجزی کا اقرار۔ اِخفا: پوشیدہ ہونا۔ مَصالِح: مَصلَحتیں۔ کوتاہ طَبائِع: سُست طبیعتیں۔ فائدہ: اِس حدیث میں تین مضمون قابلِ غور ہیں: اَمرِ اوَّل جو سب سے اہم ہے وہ جھگڑا ہے، جو اِس قدر سخت بُری چیز ہے کہ اِس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے شبِ قدر کی تَعیین اُٹھالی گئی، اور صرف یہی نہیں؛ بلکہ جھگڑا ہمیشہ برکات سے محرومی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمھیںنماز، روزہ، صدقہ وَغیرہ سب سے اَفضل چیز بتلاؤں؟ صحابہث نے عرض کیا: ضرور، حضور ﷺنے فرمایا کہ: آپس کا سُلوک سب سے اَفضل ہے، اور آپس کی لڑائی دِین کو مُونڈنے والی ہے، یعنی: جیسے اُسترے سے سَر کے بال ایک دَم صاف ہوجاتے ہیں آپس کی لڑائی سے دِین بھی اِسی طرح صاف ہوجاتا ہے۔ دنیا دار، دِین سے بے خبرلوگوں کا کیا ذکر! جب کہ بہت سی لمبی لمبی تسبیحیں پڑھنے والے، دِین کے دعوے دار بھی ہر وَقت آپس کی لڑائی میں مُبتَلا رہتے ہیں، اوَّل حضورﷺ کے ارشاد کو غور سے دیکھیں اور پھر اپنے اُس دین کی فکر