فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حتی کہ حَریرہ سا تیار ہوگیا، اُس کے بعد آپ صنے اپنے دستِ مبارک سے نکال کراُن کو کھلایا، وہ سَیر ہوکر خوب ہنسی کھیل میں مشغول ہوگئے، اور جو بچا تھا وہ دوسرے وقت کے واسطے اُن کے حوالے کردیا، وہ عورت بہت خوش ہوئی، اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیردے،تم تھے اِس کے مستحق کہ بجائے حضرت عمرص کے تم ہی خلیفہ بنائے جاتے، حضرت عمرص نے اُس کوتسلی دی، اورفرمایا کہ: ’’جب تم خلیفہ کے پاس جاؤگی تومجھ کوبھی وہیں پاؤگی‘‘۔ حضرت عمرص اُس کے قریب ہی ذرا ہٹ کر زمین پربیٹھ گئے، اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلے آئے، اور فرمایا کہ: مَیں اِس لیے بیٹھاتھا کہ مَیں نے اُن کوروتے ہوئے دیکھا تھا، میرادل چاہا کہ تھوڑی دیر اُن کوہنستے ہوئے بھی دیکھوں۔ (اشہُرِ مشاہیر، منتخب کنزالعُمَّال) صبح کی نماز میں اکثرسورۂ کہف، طٰہٰ وغیرہ بڑی سورتیں پڑھتے اورروتے، کہ کئی کئی صفوں تک آوازجاتی۔ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھ رہے تھے، ﴿إِنَّمَا أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْ إِلیَ اللہِ﴾ [ یوسف:۸۶]پر پہنچے توروتے روتے آواز نہ نکلی۔ تہجُّد کی نماز میں بعض مرتبہ روتے روتے گرجاتے اوربیمارہوجاتے۔ فائدہ:یہ ہے اللہ کاخوف اُس شخص کاجس کے نام سے بڑے بڑے ناموَر بادشاہ ڈرتے تھے، کانپتے تھے، آج بھی ساڑھے تیرہ سوبرس کے زمانے تک اُس کادبدبہ مانا ہوا ہے؛ حَریرہ: ایک خاص قسم کا میٹھا کھانا۔ دستِ: ہاتھ۔ آج کوئی بادشاہ نہیں، حاکم نہیں، کوئی معمولی ساامیر بھی اپنی رَعایاکے ساتھ ایسابرتاؤ کرتا ہے؟۔ (۷)حضرت ابن عباس کی نصیحت وَہْب بن مُنَبَّہؒ کہتے ہیں کہ: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا کی ظاہری بینائی جانے کے بعد مَیں اُن کو لیے جارہا تھا، وہ مسجدِحرام میں تشریف لے گئے، وہاں پہنچ کر ایک مجمع سے کچھ جھگڑے کی آواز آرہی تھی، فرمایا: ’’مجھے اُس مجمع کی طرف لے چلو‘‘ مَیں اُس طرف لے گیا، وہاں پہنچ کر آپ ص نے سلام کیا، اُن لوگوں نے بیٹھنے کی درخواست کی تو آپ نے انکارفرما دیا، اور فرمایا کہ: تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ کے خاص بندوں کی جماعت وہ لوگ ہیں جن کو اُس کے خوف نے چپ کر رکھا ہے، حالاںکہ وہ نہ عاجز ہیں نہ گونگے؛ بلکہ فصیح لوگ ہیں،بولنے والے ہیں، سمجھ دار ہیں؛ مگر اللہ تعالیٰ کی بَڑائی کے ذکر نے اُن کی عقلوں کو اُڑا رکھا ہے، اُن کے دل اِس کی وجہ سے ٹوٹے رہتے ہیں،