فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
وہ کہہ رہا تھا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ، حضرت جبرئیل ںنے ارشاد فرمایا کہ: اپنی جگہ لوٹ جا، وہ چلا گیا؛ پھر دوسری قبر پر دوسرا پَر مارا اور ارشاد فرمایا کہ: اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا، اُس میں سے ایک شخص نہایت بد صورت، کالا منھ، کَیری آنکھوں والا کھڑا ہوا، وہ کہہ رہا تھا: ہائے افسوس! ہائے شرمندگی! ہائے مصیبت!! پھر حضرت جبرئیل ں نے فرمایا: اپنی جگہ لوٹ جا، اِس کے بعد حضورِاقدس ﷺ سے عرض کیا کہ: جس حالت پر یہ لوگ مرتے ہیں اُسی حالت پر اُٹھیںگے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) حدیثِ بالا میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُوالوں سے بہ ظاہر وہ لوگ مراد ہیں جن کو اِس پاک کلمے کے ساتھ خصوصی لَگاؤ، خصوصی مُناسَبت، خُصوصی اِشتِغال ہو؛ اِس لیے کہ دودھ والا، جوتوں والا، موتی والا، برف والا وہی شخص کہلاتا ہے جس کے یہاں اِن چیزوں کی خُصوصی بِکری اور خصوصی ذَخیرہ موجود ہو؛ اِس لیے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ والوں کے ساتھ اِس مُعاملے میں کوئی اِشکال نہیں۔ قرآنِ پاک میں سورۂ فاطر میں اِس اُمَّت کے تین طبقے بیان فرمائے ہیں: ایک طبقہ سَابِقٌ بِالخَیرَاتِ کا بیان فرمایا، جن کے مُتعلِّق حدیث میں آیا ہے کہ: وہ بے حساب جنت میں داخل ہوںگے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جو شخص سو مرتبہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُپڑھا کرے اُس کو حقتَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن ایسی حالت میں اُٹھائیںگے کہ چودھویں رات کے چاند کی طرح اُن کاچہرہ روشن ہوگا۔ حضرت ابودَرداء ص فرماتے ہیں کہ: جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذِکر سے تَروتازہ رہتی ہیں وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوںگے۔(ابن مبارک،ابواب الزہد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۱۲۶) (۱۴) عَن عَبدِاللہِ بنِ عَمروٍ بنِ العَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: إِنَّ اللہَ یَستَخْلِصُ رَجُلًا مِن أُمَّتِي عَلیٰ رُءُ وْسِ الخَلَائِقِ یَومَ القِیَامَۃِ، فَیَنشُرُ عَلَیہِ تِسعَۃً وَّتِسعِینَ سِجِلًّا، کُلُّ سِجِلٍّ مِثلَ مَدِّ البَصَرِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَتُنکِرُ مِنْ هٰذَا شَیئًا؟ أَظَلَمَكَ کَتَبَتِيَ الحَافِظُونَ؟ فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذرٌ؟ فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ اللہُ تَعَالیٰ: بَلیٰ! إِنَّ لَكَ عِندَنَا حَسَنَۃٌ، فَإِنَّہٗ لَاظُلْمَ عَلَیكَ الیَومَ، فَتُخرَجُ بِطَاقَۃٌ، فِیهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ، فَیَقُولُ: اُحضُرْ وَزَنَكَ، فَیَقُولُ: یَارَبِّ! مَاهٰذِہِ البِطَاقَۃُ مَعَ هٰذِہِ السِّجِلَّاتِ؟ فَقَالَ: فَإِنَّكَ لَاتُظلَمُ الیَومَ، فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي کَفَّۃٍ وَالِبطَاقَۃُ فِي کَفَّۃٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ البِطَاقَۃُ؛ فَلَا یَثقُلُ مَعَ اللہِ شَيئٌ. (رواہ الترمذي، وقال: حسن غریب، وابن ماجہ، وابن حبان في صحیحہ، والبیهقي، والحاکم وقال: صحیح علیٰ شرط مسلم؛ کذا في الترغیب. قلت:کذا قال الحاکم في کتاب الإیمان، وأخرجہ أیضا في کتاب الدعوات، وقال: صحیح الإسناد، وأقرہ في الموضعین الذهبي، وفي المشکاۃ أخرجہ بروایۃ الترمذي وابن ماجہ، وزاد السیوطي في الدر في من عزاہ إلیهم أحمد، وابن مردویہ واللألکائي والبیهقي في البعث، وفیہ اختلاف في بعض الألفاظ، کقولہ في أول الحدیث: ’’یُصَاحُ بِرَجُلٍ مِن أُمَّتِي عَلیٰ رُءُ وْسِ الخَلَائِقِ‘‘، وفیہ أیضا: ’’فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذرٌ أَو حَسَنَۃٌ؟ فَیُهَابُ الرَّجُلُ، فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ: بَلیٰ! إِنَّ لَكَ عِندَنَا حَسَنَۃٌ. الحدیث. وعلم منہ أن الاستدراك في الحدیث علیٰ محلہ، ولاحاجۃ إذا إلیٰ ما أولہ القاري في المرقاۃ، وذکر السیوطي ما یؤید الروایۃ من الروایات الأخر) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن میری اُمَّت میں