فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کم ہیں: ایک یہ کہ اِن تسبیحوں کو ہرنماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں تو ایک سو پچاس ہوئیں؛ لیکن اعمال کی ترازو میں پندرہ سو ہوںگی، دوسرے یہ کہ: سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳- ۳۳ مرتبہ پڑھے، اور اَللہُ أَکْبَرُ۳۴؍ مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں سو مرتبہ ہوئیں اور ثواب کے اِعتبار سے ایک ہزار ہوئیں، کسی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! یہ کیا بات ہے کہ اِن پر عمل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: نماز کے وقت شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ: فلاں ضرورت ہے اور فلاں کام ہے، اور جب سونے کا وقت ہوتا ہے وہ اِدھر اُدھر کی ضرورتیں یاد دِلاتا ہے، جن سے پڑھنا رہ جاتا ہے۔ (ابوداود،کتاب الادب،باب في التسبیح عند النوم،ص:۶۹۰حدیث:۵۰۶۵) اِن احادیث میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ، حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا جنت کی عورتوں کی سردار اور دو جہاں کے سردار کی بیٹی اپنے ہاتھ سے آٹا پیستیں، حتیٰ کہ ہاتھوں میں گَٹے پڑگئے، خود ہی پانی بھر کر لاتیں حتیٰ کہ سینے پر مَشک کی رسی کے نشان ہوگئے، خود ہی گھر کی جھاڑو وغیرہ سارا کام کرتیں جس سے ہر وقت کپڑے میلے رہتے، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا؛ غرض سب ہی کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں، کیا ہماری بیبیاں یہ سارے کام تو کیا، اِن میں سے آدھے بھی اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں؟ اور اگر نہیں کرتیں تو کتنی غیرت کی بات ہے! کہ جن کے آقاؤں کی یہ زندگی ہو اُن کے نام لیوا، اُن کے نام پر فخر کرنے والوں کی زندگی اُس کے آس پاس بھی نہ ہو!!چاہیے تو یہ تھا کہ خادموں کا عمل، اُن کی مَشقَّت آقاؤں سے کچھ آگے ہوتی؛ مگر افسوس! کہ یہاں اُس کے آس پاس بھی نہیں۔ فَإِلَی اللہِ المُشتَکیٰ وَاللہُ المُستَعَانُ. خاتمہ خاتمے میں ایک نہایت مُہتَم بِالشَّان چیز کو ذکر کرتا ہوں، اور اِسی پر اِس رسالے کو ختم کرتا ہوں۔ یہ تسبیحات -جن کا اوپر ذکر کیا گیا- نہایت ہی اہم اور دِین ودنیا میں کارآمد اور مُفید ہیں، جیسا کہ احادیثِ بالا سے معلوم ہوا، حضورِ اقدس ﷺ نے اِن کے اِہتمام اور فضیلت کی وجہ سے ایک خاص نماز کی ترغیب بھی فرمائی ہے، جو’’صَلَاۃُالتَّسبِیْح‘‘ (تسبیح کی نماز)کے نام سے مشہور ہے، اوراِسی وجہ سے اِس کو’’صَلَاۃُالتَّسبِیْح‘‘ کہاجاتا ہے کہ، یہ تسبیحات اِس میںتین سو مرتبہ پڑھی جاتی ہیں۔ حضورﷺ نے بہت ہی اِہتمام اور ترغیبوں کے ساتھ اِس نماز کوتعلیم فرمایا، چناں چہ حدیث میں وارد ہے: (۱)عَن ابنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ لِلعَبَّاسِ بنِ عَبدِالمُطِّلِبِ: یَا عَبَّاسَ! یَا عَمَّاہُ! أَلَا أُعطِیكَ؟ أَلَا أَمنَحُكَ؟ أَلَا أُخبِرُكَ؟ أَلَا أَفعَلُ بِكَ عَشرَ خِصَالٍ؟ إِذَا أَنتَ فَعَلتَ ذٰلِكَ غَفَرَ اللہُ لَكَ ذَنبَكَ: أَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ، قَدِیمَہٗ وَحَدِیثَہٗ، خَطَأَہٗ