فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍص:أَنَّہٗ کَانَ مُعْتَکِفاً فِيْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللہِﷺ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ لَہٗ ابْنُ عَبَّاسٍص: یَافُلَانٌ! أَرَاكَ مُکْتَبِئًا حَزِیْناً، قَالَ: نَعَمْ یَااِبْنَ عَمِّ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ! لِفُلَانٍ عَلَيَّ حَقٌّ، وَلَا(۱)حُرْمَۃَ صَاحِبَ هٰذَا الْقَبْرِ مَا أَقْدِرُ عَلَیْہِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَفَلَا أُکَلِّمُہٗ فِیْكَ؟ قَالَ: إنْ أَحْبَبْتَ، قَالَ: فَانْتَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَ لَہُ الرَّجُلُ: أَنَسِیْتَ مَاکُنْتَ فِیْہِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنِّيْ سَمِعْتُ صَاحِبَ هٰذَا الْقَبْرِﷺ وَالْعَهْدُ بِہٖ قَرِیْبٌ -فَدَمِعَتْ عَیْنَاہُ- وَهُوَ یَقُوْلُ: مَنْ مَشیٰ فِيْ حَاجَۃِ أَخِیْہِ وَبَلَغَ فِیْهَا کَانَ خَیْراً لَّہٗ مِنْ اِعْتِکَافِ عَشْرِ سِنِیْنَ، وَمَنِ اعْتَکَفَ یَوْماً اِبْتِغَاءَ وَجْہِ اللہِ جَعَلَ اللہُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ ثَلٰثَ خَنَادِقَ أَبْعَدَ مِمَّا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ. (رواہ الطبراني في الأوسط والبیهقي، واللفظ لہ، والحاکم مختصراً وقال: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب، وقال السیوطي في الدر: صححہ الحاکم وضعفہ البیهقي) [حاشیہ: هکذافي النسخۃ التي بأیدینا بلفظ حرف النهي، وهو الصواب عندي لوجوہ، ووقع في بعض النسخ بلفظ ’’ولاء‘‘ بالهمزۃ، وهو تصحیف عندي من الکاتب، وعلیہ قرائن ظاهرۃ] ترجَمہ:حضرت ابنِ عباس صایک مرتبہ مسجدِ نبوی -عَلیٰ صَاحِبِہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ- میں مُعتکِف تھے، آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کرکے چُپ چاپ بیٹھ گیا، حضرت ابن عباس ص نے اُس سے فرمایا کہ: مَیں تمھیں غم زَدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں، کیا بات ہے؟ اُس نے کہا کہ: اے رسولُ اللہ کے چچا کے بیٹے! مَیں بے شک پریشان ہوں، کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے، اور -نبیٔ کریم ﷺ کی قبرِ اَطہر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ:- اِس قبر والے کی عزَّت کی قَسم! مَیں اُس حق کے ادا کرنے پر قادِر نہیں، حضرت ابن عباسص نے فرمایا کہ: اچھا! کیا مَیں اُس سے تیری سفارش کروں؟ اُس نے عرض کیا: جیسے آپ مناسب سمجھیں، ابن عباس صیہ سن کر جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے، اُس شخص نے عرض کیا کہ: آپ اپنا اِعتکاف بھول گئے؟ فرمایا: بھولا نہیں ہوں؛ بلکہ مَیں نے اِس قبر والے ﷺ سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا، (یہ لفظ کہتے ہوئے)ابن عباسص کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، کہ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ: جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے، اُس کے لیے دَس برس کے اِعتکاف سے اَفضل ہے، اور جوشخص ایک دن کا اِعتکاف بھی اللہ کی رَضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے اورجہنَّم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں، جن کی مَسافَت آسمان اور زمین کی درمیانی مَسافَت سے زیادہ چوڑی ہوتی ہے، (اور جب ایک دن کے اِعتکاف کی یہ فضیلت ہے تودس برس کے اِعتکاف کی کیا کچھ مقدار ہوگی۔) غم زَدہ: مصیبت کا مارا ہوا۔ مَسافَت: دُوری، فاصلہ۔ حائل: آڑ۔ تَلافِی: کمی پورا کرنا۔ مَقُولہ: بات۔ بِتَرس اَز آہِ مَظلُوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن ء اِجابت اَز دَرِ حَق بہرِاِستِقبال مِی آید: مظلوموں کی آہ سے ڈر؛ اِس لیے کہ دعا کرنے کے وقت قَبولِیَّت اللہ کے دروازے سے اِستقبال کے لیے آتی ہے۔ حاجت رَوائی: ضرورت پورا کرنا۔ اِیثار: ترجیح دینا۔ فائدہ: اِس حدیث سے دومضمون معلوم ہوئے: اول یہ کہ، ایک دن کے اِعتکاف کا ثواب یہ ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے اورجہنَّم کے درمیان تین خندقیں حائل فرما دیتے ہیں، اور ہر خندق اِتنی بڑی ہے جتنا ساراجہان، اور ایک دن سے زیادہ جس قدر زیادہ دنوں کا اِعتکاف ہوگا اُتنا ہی اجر زیادہ ہوگا۔ عَلَّامہ شَعرانیؒ