فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
پر غالب ہوتی جاتی ہے، حضورﷺ کایہ ارشادفرمانا تھاکہ ہم لوگ ایک دَم ایسے گھبرا کے اُٹھے کہ ہمارے بھاگنے سے اونٹ بھی اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، اور ہم نے فوراً سب چادریں اونٹوں سے اُتار لِیں۔ (ابوداؤد، ص ۵۶۳) فائدہ: صحابۂ کرام رَضِيَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ کی زندگی میں اِس قِسم کے واقعات کوئی اَہمِّیَّت نہیں رکھتے، ہاں! ہماری زندگی کے اعتبارسے اُن پر تعجب ہوتا ہے، اُن حضرات کی عام زندگی ایسی ہی تھی۔ عُروہ بن مسعودص جب ’’صلحِ حدیبیہ‘‘ میں -جس کاقِصَّہ باب؍۱ کے ۳؍ پر گزرا- کُفَّار کی طرف سے قاصد کی حیثیت سے آئے تھے، تومسلمانوں کی حالت کا بڑی غور سے مُطالَعہ کیا تھا، اور مکہ واپس جاکر کُفَّارسے کہاتھا کہ: مَیں بڑے بڑے بادشاہوں کے یہاں قاصد بن کر گیاہوں، فارِس ورُوم اور حَبشہ کے بادشاہوں سے مِلاہوں، مَیں نے کسی بادشاہ کے یہاں یہ بات نہیں دیکھی کہ اُس کے درباری اُس کی اِس قدرتعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺکی جماعت اُن کی تعظیم کرتی ہے، کبھی اُن کابلغم زمین پر نہیں گرنے دیتی، وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ پرپڑتاہے، اور وہ اُس کو منھ اور بدن پر مَل لیتا ہے، جب وہ کوئی حکم کرتے ہیں توہرشخص دوڑتا ہے کہ تعمیل کرے، جب وہ وُضو کرتے ہیں تو وُضو کا پانی بدن پر مَلنے اور لینے کے واسطے ایسے دوڑتے ہیں گویا آپس میں جنگ وجَدَل ہوجائے گا، اورجب وہ بات کرتے ہیں توسب چُپ ہوجاتے ہیں، کوئی شخص اُن کی طرف عظمت کی وجہ سے نگاہ اُٹھاکر نہیں دیکھ سکتا۔(بخاری، باب الشروط فی الجہاد، ۱؍ ۳۷۹) (۴) حضرت وَائل کا ’’ذُباب‘‘ کے لفظ سے بال کٹوا دینا تعمیل: عمل کرنا۔ مَجال: طاقت۔ حسبِ معمول: معمول کے مطابق۔ وَائل بن حَجرص کہتے ہیں کہ: مَیں ایک مرتبہ حاضرِخدمت ہوا، میرے سر کے بال بہت بڑے ہوئے تھے، مَیں سامنے آیا تو حضورﷺ نے ارشادفرمایاکہ: ’’ذُباب، ذُباب‘‘، مَیں یہ سمجھا کہ میرے بالوں کو ارشاد فرمایا، مَیں واپس گیا اور اُن کو کٹوا دیا، جب دوسرے دن خدمت میں حاضری ہوئی تو ارشادفرمایا کہ: مَیں نے تمھیں نہیں کہاتھا؛ لیکن یہ اچھا کیا۔ (ابوداؤد، باب فی تطویل الجمہ، ص ۵۷۶) فائدہ: ’’ذُباب‘‘ کے معنیٰ مَنحوس کے بھی ہے اور بُری چیز کے بھی۔ یہ اِشاروں پر مَرمِٹنے کی بات ہے کہ مَنشا سمجھنے کے بعد -خواہ وہ غلط ہی سمجھاہو- اُس کی تعمیل میں دیر نہ ہوتی تھی، یہاں حضورﷺ نے ارشاد ہی فرما دیا کہ: تم کو نہیں کہا تھا؛ مگر یہ چوںکہ اپنے متعلِّق سمجھے؛ اِس لیے کیا مَجال تھی کہ دیر ہوتی!۔ (۵) حضورﷺ کی طرف سے سلام کا جواب نہ پاکر حضرت ابن