فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
فائدہ: جو شخص اِخلاص کے ساتھ کلمۂ طَیَّبہ کا وِرد کرتا رہا ہو اُس پرجہنَّم کی آگ کا حرام ہونا ظاہری قواعد کے موافق تو مُقیَّد ہے کَبائر گناہ نہ ہونے کے ساتھ، یا جہنَّم کے حرام ہونے سے اُس میں ہمیشہ کا رہنا حرام ہے؛ لیکن اللہجَلَّ شَانُہٗاِس پاک کلمے کواِخلاص سے پڑھنے والے کو باوجود گناہوں کے بالکل ہی جہنَّم سے مُعاف فرمادیں توکون روکنے والا ہے؟۔ اَحادیث میں ایسے بندوں کا بھی ذکر آتا ہے کہ: قِیامت کے دن حقتَعَالیٰ شَانُہٗ بعض لوگوں کو فرمائیںگے: تُونے فلاں گناہ کیا، فلاں کیا، اِس طرح جب بہت سے گناہ گِنوائے جاچکیںگے اور وہ سمجھے گا کہ مَیں ہلاک ہوگیا، اور اِقرار بغیر چارۂ کار نہ ہوگا، تو ارشاد ہوگا کہ: ہم نے دنیا میں تیری سَتَّاری کی آج بھی سَتَّاری کرتے ہیں، تجھے مُعاف کردیا۔(مسلم،کتاب التوبۃ،باب سعۃ رحمۃ اللہ علی المؤمنین، ۲؍ ۳۶۰ حدیث: ۲۷۶۸) اِس نوع کے بہت سے وَاقِعات احادیث میں موجود ہیں؛ اِس لیے اِن ذاکرین کے لیے بھی اِس قِسم کا مُعاملہ ہوتو بعید نہیں ہے۔ اللہ کے پاک نام میں بڑی برکت اور بَہبُودی ہے؛ اِس لیے جتنی بھی کثرت ہوسکے دَریغ نہ کرنا چاہیے۔ کیاہی خوش نصیب ہیں وہ مُبارک ہَستِیاں جنھوں نے اِس پاک کلمے کی برکات کو سمجھا اور اُس کے وِردمیں عُمریں ختم کردِیں!۔ (۲۵) عَن یَحْییٰ بنِ طَلحَۃَ بنِ عَبدِاللہِ قَالَ: رُؤِيَ طَلْحَۃُ حَزِیناً فَقِیلَ لَہٗ: مَالَكَ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ عِندَ مَوتِہٖ إِلَّا نَفَّسَ اللہُ عَنہُ کُربَتَہٗ، وَأَشرَقَ لَونُہٗ، وَرَأَی مَایَسُرُّہٗ؛ وَمَامَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَہٗ عَنهَا إِلَّا القُدرَۃُ عَلَیہِ حَتّٰی مَاتَ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي لَأَعلَمُهَا، قَالَ: فَمَا هِيَ؟ قَالَ: لَانَعلَمُ کَلِمَۃً هِيَ أَعظَمُ مِن کَلِمَۃٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّہٗ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، قَالَ: فَهِيَ، وَاللہِ هِيَ. (أخرجہ البیهقي في الأسماء والصفات، کذا في الدر. قلت: أخرجہ الحاکم، وقال: صحیح علیٰ شرط الشیخین، وأقرہ علیہ الذهبي. وأخرجہ أحمد، وأخرج أیضا من مسند عمر بمعناہ بزیادۃ فیهما، وأخرجہ ابن ماجہ عن یحییٰ بن طلحۃ عن أمہ، وفي شرح الصدور للسیوطي: وأخرج أبو یعلیٰ والحاکم بسند صحیح عن طلحۃ وعمر، قالا: ’’سَمِعْنَا رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي أَعلَمُ کَلِمَۃً‘‘، الحدیث. ترجَمہ: حضرت طلحہص کو لوگوں نے دیکھا کہ: نہایت غمگین بیٹھے ہیں، کسی نے پوچھا: کیا بات ہے؟ فرمایا: مَیں نے حضور ﷺسے یہ سنا تھا کہ: مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ جو شخص مرتے وقت اُس کو کہے تو موت کی تکلیف اُس سے ہٹ جائے، اور رنگ چمکنے لگے، اور خوشی کامنظر دیکھنے لگے؛ مگر مجھے حضور ﷺسے اُس کلمے کے پوچھنے کی قدرت نہ ہوئی، اِس کا رنج ہورہا ہے، حضرت عمر صنے فرمایا: مجھے معلوم ہے، طلحہص (خوش ہوکر)کہنے لگے: کیا ہے؟ حضرت عمرص نے فرمایا: ہمیںمعلوم ہے کہ کوئی کلمہ اُس سے بڑھا ہوا نہیں ہے جس کو حضور ا نے اپنے چچا (ابوطالب)پر پیش کیا تھا، اور وہ ہے: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، فرمایا: واللہ! یہی ہے، واللہ! یہی ہے۔ سُرور: خوشی۔ چاندنا: اُجالا۔ فائدہ:کلمۂ طیبہ کا سَراسَر نور وسُرور ہونا بہت سی روایات سے معلوم اور مفہوم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حَجر ؒنے ’’مُنبِّہات‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق صسے