فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمان ننگے پاؤں ہیں تُوہی اِن کو سواری دینے والا ہے، یہ ننگے بدن ہیں تُو ہی اِن کو کپڑا پہنانے والا ہے، یہ بھوکے ہیں تُو ہی اِن کاپیٹ بھرنے والا ہے، یہ فقیر ہیں تُوہی اِن کو غَنی کرنے والا ہے‘‘؛ چناںچہ یہ دعاقَبول ہوئی، اِن سب باتوں کے باوجود حضرت عبداللہ بن عمرص اور حضرت بَراء بن عازِب ص دونوں حضرات لڑائی میں شرکت کے شوق میں گھر سے چل دیے، نبیٔ اَکرم ﷺنے بچہ ہونے کی وجہ سے راستے میں سے لوٹادیا۔ (تاریخ خَمیس) فائدہ:یہ دونوں حضرات اُحُد کی لڑائی میں سے بھی واپس کیے گئے تھے، جیسا کہ پہلے قصے میں گزر چکا ہے، اُحُدکی لڑائی بدر کی لڑائی سے ایک سال بعد ہوئی، جب اُس میں بھی یہ بچوں میں شمار کیے گئے تو بدر میں بہ طریقِ اَولیٰ بچے تھے؛ مگر اُن حضرات کاشوق تھاکہ بچپن ہی سے یہ وَلولہ اور شوق دل میں جوش مارتاتھا، اور ہر لڑائی میں شریک ہونے اور اجازت ملنے کی کوشش کرتے تھے۔ (۱۱)حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَی ص کااپنے باپ سے معاملہ مَعرکہ: میدان۔ گُستاخانہ: بے ادبی کے۔ تاب: برداشت۔حِمایتی: مددگار۔ مَرحَمَت: عنایت۔ وَقعت: عظمت۔ تحمُّل: برداشت۔ ۵ ھ میں ’’بنوالمُصطَلِق‘‘ کی مشہورجنگ ہوئی، اِس میں ایک مُہاجِری اور ایک انصاری کی باہم لڑائی ہوگئی، معمولی بات تھی؛مگر بڑھ گئی، ہر ایک نے اپنی اپنی قوم سے دوسرے کے خلاف مدد چاہی، اور دونوں طرف جماعتیں پیدا ہوگئیں،اور قریب تھا کہ آپس میں لڑائی کامَعرکہ گرم ہوجائے کہ درمیان میں بعض لوگوں نے پڑ کر صُلح کرا دی۔ عبداللہ بن اُبَی مُنافِقوں کاسردار اور نہایت مشہورمُنافِق اور مسلمانوں کاسخت مخالِف تھا؛ مگر چوںکہ اسلام ظاہرکرتا تھا؛ اِس لیے اُس کے ساتھ خلاف کا برتاؤ نہ کیا جاتا تھا، اور یہی اُس وقت منافقوں کے ساتھ عام برتاؤ تھا، اُس کوجب اِس قصے کی خبر ہوئی تو اُس نے حضورِ اقدس ﷺکی شان میں گُستاخانہ لفظ کہے، اور اپنے دوستوں سے خِطاب کرکے کہا کہ: یہ سب کچھ تمھارا اپنا ہی کیا ہوا ہے، تم نے اِن لوگوں کو اپنے شہروں میں ٹھکانا دیا، اپنے مالوں کو اِن کے درمیان آدھوآدھ بانٹ لیا، اگر تم اِن لوگوں کی مدد کرنا چھوڑ دو تو اب بھی سب چلے جاویں، اور یہ بھی کہا کہ: خداکی قَسم! ہم لوگ اگرمدینہ پہنچ گئے تو ہم عزت والے مل کر اِن ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیںگے۔ حضرت زید بن ارقم ص-نوعمر بچے تھے- وہاں موجود تھے، یہ سن کر تاب نہ لاسکے، کہنے لگے کہ: ’’خدا کی قَسم! تُو ذلیل ہے، تُو اپنی قوم میں بھی تِرچھی نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے، تیرا کوئی حِمایتی نہیں ہے، اور محمدﷺ عزت والے ہیں، رحمن کی طرف سے بھی عزت دیے گئے ہیں اور اپنی قوم میں بھی عزت والے ہیں‘‘، عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ: اچھا! چُپکا رہ، مَیں توویسے ہی مَذاق