فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جاںفَشانی: سرگرمی۔ شَمّہ: تھوڑی سی چیز۔ سیہ کاروں: گنہگاروں۔ اَبر: بادل۔ فَق: پیلا۔ اِنبساط:خوشی۔ آثار: علامات۔ مگرآپ پر ایک گِرانی محسوس ہوتی ہے، حضورﷺنے ارشادفرمایا: ’’عائشہ! مجھے اِس کا کیا اطمینان ہے کہ اِس میں عذاب نہ ہو! قومِ عاد کو ہَوا کے ساتھ ہی عذاب دیاگیا، اور وہ اَبرکو دیکھ کر خوش ہوئے تھے کہ اِس اَبرمیں ہمارے لیے پانی برسایا جائے گا؛حالاںکہ اُس میں عذاب تھا‘‘۔ (دُرِّمنثور، ۶؍ ۱۴) اللہجَلَّ شَانُہٗ کاارشاد ہے: ﴿فَلَمَّا رَأَوْہٗ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ﴾۔ الاٰیۃ [احقاف ۲۴] ترجَمہ: اُن لوگوں نے (یعنی قومِ عاد نے)جب اُس بادل کو اپنی وادیوں کے مقابِل آتے دیکھا، تو کہنے لگے: یہ بادل تو ہم پربارش برسانے والاہے، (ارشادِ خداوندی ہواکہ:) نہیں،(برسنے والا) نہیں؛بلکہ یہ وہی (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے، (اورنبی سے کہتے تھے کہ: اگر تُوسچا ہے تو ہم پرعذاب لا)،ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے، جوہرچیز کواپنے رب کے حکم سے ہلاک کردے گی؛ چناںچہ وہ(لوگ اُس آندھی کی وجہ سے) ایسے (تباہ) ہوگئے کہ بجُزاُن کے مکانات کے کچھ نہ دکھلائی دیتا تھا، اور ہم مجرموں کواِسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔(بیان القرآن) فائدہ:یہ اللہ کے خوف کاحال اُسی پاک ذات کاہے جس کاسَیِّدُ الأوَّلِیْنَ وَالاٰخِرِیْن ہونا خوداُسی کے ارشادسے سب کومعلوم ہے، خود کلامِ پاک میں یہ ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ ایسانہ کریںگے کہ اُن میں آپ کے ہوتے ہوئے اُن کو عذاب دے، اِس وعدۂ خدا وندی کے باوجود پھرحضورِاقدس ﷺ کے خوفِ الٰہی کایہ حال تھا، کہ اَبر اور آندھی کو دیکھ کرپہلی قوموں کے عذاب یادآجاتے تھے؛ اِسی کے ساتھ ایک نگاہ اپنے حال پربھی کرنا ہے،کہ ہم لوگ ہروقت گناہوں میں مبتلارہتے ہیں، اور زلزلوں اوردوسری قِسم کے عذابوں کودیکھ کر بجائے اُس سے متأثِّر ہونے کے، توبہ استغفار، نماز وغیرہ میں مشغول ہونے کے دوسری قِسم قِسم کی لَغوتحقیقات میں پڑجاتے ہیں۔ گِرانی: بوجھ۔ سَیِّدُ الأوَّلِیْنَ وَالاٰخِرِیْن: اگلوں اور پچھلوں کے سردار۔ (۲)اندھیرے میں حضرت اَنَس کافعل نَضْربن عبداللہ ص کہتے ہیں کہ: حضرت انس صکی زندگی میں ایک مرتبہ دن میں اندھیرا چھا گیا، مَیںحضرت انس ص کی خدمت میں حاضر ہوا، اورعرض