فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اِس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بُری باتوں میں مشغول ہو تو اُس کو اِہتِمام سے نماز میں مشغول ہوناچاہیے، بُری باتیں اُس سے خود ہی چھوٹ جائیں گی، ہر ہر بُری بات کے چھڑانے کااِہتِمام دشوار بھی ہے اور دیر طلب بھی، اور اِہتِمام سے نماز میںمشغول ہوجانا آسان بھی ہے اور دیر طلب بھی نہیں،اِس کی برکت سے بُری باتیں اُس سے اپنے آپ ہی چھوٹتی چلی جاویں گی۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ مجھے بھی اچھی طرح نمازپڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (۸)عَنْ جَابِرٍقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ طُوْلُ الْقُنُوْتِ. (أخرجہ ابن أبي شیبۃ ومسلم والترمذي وابن ماجہ، کذا في الدر المنثور، وفیہ أیضاً عن مجاهدٍ فِي قَولِہِ تَعَالیٰ: ﴿وَقُومُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِینَ﴾ قَالَ: مِنَ القُنُوْتِ الرُّکُوعُ، وَالخُشُوعُ، وَطُولُ الرُّکُوعِ یَعنِي طُولَ القِیَامِ، وَغَضُّ البَصَرِ، وَخَفضُ الجَنَاحِ، وَالرَّهبَۃُ لِلّٰہِ؛ وَکَانَ الفُقَهَاءُ مِن أَصحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ إِذَا قَامَ أَحَدُهُمْ فِي الصَّلَاۃِ، یَهَابُ الرَّحمٰنَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ أَن یَلْتَفِتَ، أَو یَقْلِبَ الحَصیٰ، أَو یَشُدَّ بَصَرَہٗ، أَوْیَعْبَثَ بِشَيْئٍ، أَوْ یُحَدِّثَ نَفْسَہٗ بِشَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا إِلَّا نَاسِیاً حَتیٰ یَنْصَرِفَ. أخرجہ سعید بن المنصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن حاتم والأصبهاني في الترغیب والبیهقي في شعب الإیمان.اھ) وهذا آخرُ ماأردتُ إیرادہ في هٰذہ العُجالۃ رعایۃً لعدد الأربعینَ، واللہ وليُّ التوفیق. وقد وقع الفراغَ منہ لیلۃ الترویۃ سنۃَ سبع وخمسین بعدَ ألف وثلاثَ مأۃٍ، والحمدُ للّٰہِ أولًا واٰخراً. ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکاارشاد ہے کہ: افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی لمبی رکعتیں ہوں۔ مجاہدؒ کہتے ہیں کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے ارشاد: ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾ (اور نماز میں) کھڑے رہو اللہ کے سامنے مُؤدَّب، اِس آیت میں رکوع بھی داخل ہے اورخشوع بھی، اور لمبی رکعت ہونا بھی، اور آنکھوں کوپَست کرنا، بازوؤں کوجھکانا (یعنی اَکڑ کے کھڑانہ ہونا)،اوراللہ سے ڈرنابھی (شامل ہے، کہ لفظِ ’’قنوت‘‘ میں -جس کا اِس آیت میں حکم دیاگیا- یہ سب چیزیں داخل ہیں)۔حضورِ اقدس ﷺکے صحابہ ث میں سے جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہوتا تھا تواللہ تعالیٰ سے ڈرتاتھا اِس بات سے کہ اِدھر اُدھر دیکھے، یا(سجدے میں جاتے ہوئے) کنکریوں کو اُلٹ پلٹ کرے، (عرب میں صفوں کی جگہ کنکریاں بچھائی جاتی ہیں)،یاکسی لَغو چیز میں مشغول ہو، یا دل میں کسی دُنیاوی چیز کاخیال لائے؛ ہاں! بھول کے خیال آگیا ہوتودوسری بات ہے۔ حسبِ عادت: عادت کے مطابق۔ عِتاب: سزا۔ طویل: لمبی۔ وَرَم: سُوجن۔ تَحمُّل: برداشت۔ بار: بوجھ۔ عِتاب: سزا۔ فائدہ:﴿قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾کی تفسیر میں مختلف ارشادات وَارِد ہوئے ہیں: ایک یہ بھی ہے کہ: ’’قٰنِتِینَ‘‘ کے معنیٰ چُپ چاپ کے ہیں، ابتدائی زمانے میں نماز میں بات کرنا، سلام کا جواب دینا، وغیرہ وغیرہ اُمورجائز تھے؛ مگر جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تونماز میں بات کرنا ناجائز ہوگیا۔(۔۔۔۔۔۔۔) حضرت عبداللہ بن مسعود ص فرماتے ہیں کہ: مجھے حضورِ اقدس ﷺ نے اِس بات کا عادی بنارکھا تھا کہ، جب مَیں حاضرہوں تو گو حضورﷺ نماز میں مشغول ہوں مَیں سلام کرتا، حضورﷺ جواب دیتے، ایک مرتبہ مَیں حاضرہوا، حضورﷺ نمازمیں مشغول تھے، مَیں نے حسبِ عادت سلام کیا، حضورﷺنے جواب نہیں دیا، مجھے سخت فکر ہوا کہ شاید میرے بارے میں