فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
قدر۔ تَقابُل: مقابَلہ۔ اِحصاء: شمار کرنا۔اِختِصاراً: مختصر طور پر۔ خُسران: نقصان۔ لاَبُدّ: ضروری۔ نگاہِ عَمِیق: گہری نگاہ۔ اِنضِباط: ڈَھنگ۔ روز وشب: دن رات۔ مَعِیشت: روزی۔ تجویز: رائے۔ مُقتَضائے عَدل: انصاف کا تقاضہ۔ سَرَاسَر: مکمل۔ اِس میں اُن احادیث میں سے بعض کا ترجمہ ہے جو مضمونِ بالا کے مُتعلِّق وارِد ہوئی ہیں، تمام احادیث کا نہ اِحاطہ مقصود ہے، نہ ہوسکتا ہے؛ نیز اگر کچھ زیادہ مقدار میں آیات واحادیث جمع بھی کی جائیں تو ڈر یہ ہے کہ دیکھے گا کون؟ آج کَل ایسے اُمور کے لیے کسے فرصت اور کس کے پاس وقت ہے؟ اِس لیے صرف یہ اَمر دِکھلانے کے لیے اور آپ حضرات تک پہنچا دینے کے لیے کہ، حضورِ اقدس ﷺ نے کس قدر اہمِّیَّت کے ساتھ اِس کی تاکید فرمائی ہے، اور نہ ہونے کی صورت میں کس قدر سخت وعید اور دھمکی فرمائی ہے، چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں: (۱) عَنْ أَبِيْ سَعِیْدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ، فَإنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ؛ وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الإِیْمَانِ. (رواہ مسلم، والترمذي، وابن ماجۃ، والنسائی؛ کذا في الترغیب) ترجَمہ: نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: جو شخص کسی ناجائز اَمر کو ہوتے ہوئے دیکھے، اگر اِس پر قدرت ہو کہ اُس کو ہاتھ سے بند کردے تو اُس کو بند کردے، اگر اِتنی مَقدِرَت نہ ہوتو زبان سے اُس پر انکار کردے، اگر اِتنی بھی قدرت نہ ہوتو دل سے اُس کوبُرا سمجھے، اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے۔ فائدہ:ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ: اگر اُس کو زبان سے بند کرنے کی طاقت ہو تو بند کردے؛ ورنہ دل سے اُس کوبُرا سمجھے، کہ اِس صورت میں بھی وہ بَرِیٔ الذِّمَّہ ہے۔ ایک اَور حدیث میں وارد ہے کہ: جو شخص دل سے اُس کو بُرا سمجھے تو وہ بھی مومن ہے؛ مگر اِس سے کم درجہ ایمان کا نہیں۔ اِس مضمون کے متعلق کئی ارشادات نبیٔ کریم ﷺ کے مختلف اَحادِیث میں نقل کیے گئے ہیں، اب اِس کے ساتھ اِس ارشاد کی تعمیل پر بھی ایک نظر ڈالتے جائیں، کہ کتنے آدمی ہم میں سے ایسے ہیں کہ کسی ناجائز کام کو ہوتے ہوئے دیکھ کر ہاتھ سے روک دیتے ہیں؟ یا فقط زبان سے اُس کی بُرائی اور ناجائز ہونے کااظہار کردیتے ہیں؟ یا کم از کم اِس ایمان کے ضعیف درجے کے موافق دل ہی سے اُس کو بُرا سمجھتے ہیں؟ یا اُس کام کو ہوتا ہوا دیکھنے سے دل تِلمِلاتا ہے؟ تنہائی میں بیٹھ کر ذرا توغور کیجیے، کہ کیا ہونا چاہیے تھا؟ اور کیا ہورہا ہے؟ ۔ (۲)عَنِ النُّعْمَانِ بنِ بَشِیْرٍ قَالَ: مَثَلُ الْقَائِمِ فِيْحُدُوْدِ اللہِ وَالْوَاقِعِ فِیْهَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اِسْتَهَمُّوْا عَلیٰ سَفِیْنَۃٍ، فَصَارَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَکَانَ الَّذِیْنَ فِيْ أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَائِ مَرُّوْا عَلیٰ مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوْا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِيْ نَصِیْبِنَا خَرْقاً وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ تَرَکُوْهُمْ وَمَا أَرَادُوْا هَلَکُوْا جَمِیْعاً، وَإِنْ أَخَذُوْا عَلیٰ أَیْدِیْهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا