فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کا وقت ہے، اور مرنے کے بعد کا زمانہ بہت ہی وَسِیع ہے، اور وہاں وہی مل سکتا ہے جویہاں بو دِیاگیا۔ (۹)عَن عَمْروٍ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّيْ لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ فَیمُوتُ عَلیٰ ذٰلِكَ إِلَّاحُرِّمَ عَلَی النَّارِ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. (رواہ الحاکم، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، ورویاہ بنحوہ؛ کذا في الترغیب) ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: مَیں ایک ایساکلمہ جانتا ہوں کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ، دل سے حق سمجھ کر اُس کو پڑھے اور اِسی حال میں مرجائے؛ مگر وہ جہنَّم پر حرام ہوجائے، وہ کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔ مُنافی: خلاف۔ عارِض: وقتی چیز۔سَقمُونیا: ایک قِسم کی دوا۔ اِسہال: دَست۔ قابِض: قَبض کرنے والی۔ جُزو: حصہ۔ فائدہ: بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، اِن سب سے اگر یہ مراد ہے کہ وہ مسلمان ہی اُس وقت ہوا ہے تب تو کوئی اِشکال ہی نہیں، کہ اسلام لانے کے بعد کُفرکے گناہ بِالاتِّفاق مُعاف ہیں، اور اگر یہ مراد ہے کہ پہلے سے مسلمان تھا اور اِخلاص کے ساتھ اِس کلمے کو کہہ کر مَرا ہے، تب بھی کیا بعیدہے کہ حقتَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے لُطف سے سارے ہی گناہ مُعاف فرماویں! حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا تو خود ہی ارشاد ہے کہ: شِرک کے عِلاوہ سارے ہی گناہ جس کے چاہیںگے مُعاف فرمادیںگے۔ مُلَّاعلی قاریؒ نے بعض عُلَما سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ: یہ اور اِس قِسم کی اَحادیث اُس وقت کے اعتبار سے ہیں جب تک دوسرے اَحکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ بعض عُلَما نے فرمایا ہے کہ: اِس سے مراد اِس کلمے کو اُس کے حق کی ادائیگی کے ساتھ کہنا جیسا کہ پہلے حدیث نمبر ۴؍ میں گزر چکا ہے۔ حسن بصریؒ وغیرہ حضرات کی بھی یہی رائے ہے۔ امام بخاریؒ کی تحقیق یہ ہے کہ: نَدامت کے ساتھ اِس کلمے کو کہا ہو، کہ یہی حقیقت توبہ کی ہے، اور پھر اِسی حال پر انتقال ہوا ہو۔ مُلَّا علی قاریؒ کی تحقیق یہ ہے کہ: اِس سے ہمیشہ جہنَّم میں رہنے کی حُرمت مراد ہے۔ اِن سب کے عِلاوہ ایک کھلی ہوئی بات اَور بھی ہے، وہ یہ کہ: کسی چیز کا کوئی خاص اَثر ہونا اِس کے مُنافی نہیں کہ کسی عارِض کی وجہ سے وہ اَثر نہ کرسکے،سَقمُونیا کا اثر اِسہال ہے؛ لیکن اگر اِس کے بعد کوئی سخت قابِض چیز کھالی جائے تو یقینا سَقمُونیا کا اثر نہ ہوگا؛ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس دوا کا وہ اثر نہیں رہا؛ بلکہ اِس عارض کی وجہ سے اُس شخص پر اثر نہ ہوسکا۔ (۱۰) عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَفَاتِیحُ الجَنَّۃِ شَهَادَۃُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّااللہُ. (رواہ أحمد،کذا في المشکوۃ، والجامع الصغیر، ورقم لہ بالضعف.وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد ورجالہ وثقوا؛ إلا أن شهرا لم یسمعہ عن معاذ. اھ رواہ البزار، وکذا في الترغیب. وزاد السیوطي في الدر: ابن مردویہ، والبیهقي، وذکرہ في المقاصد الحسنۃ بروایۃ أحمد بلفظ: ’’مِفتَاحُ الجَنَّۃِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘. واختلف في وجہ حمل الشهادۃ، وهي مفرد علی المفاتیح، وهي جمع علیٰ أقوال أوجهها عندي: أنها لما کانت مفتاحا لکل باب من أبوابہ صارت کالمفاتیح)