فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
آٹھواں باب علمی وَلولہ اور اُس کااِنہماک کارِ خیر:اچھے کام۔ اِنہماک: مشغولیت۔ شَغَف:بے انتہا رغبت۔ ثَمرہ:نتیجہ۔ بَقا: باقی رہنا۔ مُیسَّر: حاصل۔ اِضافہ: زیادتی۔ باقی ماندہ: باقی رہنے والے۔ ضَبط: حفاظت۔ دُشوار: مشکل۔ چوں کہ اصل دین کلمۂ توحید ہے اور وہی سب کمالات کی بنیاد ہے، جب تک وہ نہ ہو کوئی کارِ خیر بھی مَقبول نہیں؛ اِس لیے صحابۂ کرام ث کی ہمَّت -بِالخُصوص اِبتدائی زمانے میں- زیادہ تر کلمۂ توحید کے پھیلانے اور کُفَّارسے جہاد کرنے میں مشغول تھی، اور وہ علمی اِنہماک کے لیے فارغ اور یَکسُو نہ تھے؛ لیکن اِس کے باوجود اِن مَشاغِل کے ساتھ اُن کااِنہماک اور شوق وشَغَف -جس کاثَمرہ آج چودہ سوبرس تک علومِ قرآن وحدیث کابَقا ہے- ایک کھلی ہوئی چیز ہے۔ ابتدائے اسلام کے بعد جب کچھ فراغت اِن حضرات کو مُیسَّرہوسکی اور جماعت میں بھی کچھ اِضافہہوا، توآیتِ کلام اللہ ﴿وَمَا کَانَ الْمؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً، فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّیْنِ، وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ﴾ نازل ہوئی، جس کاترجَمہ یہ ہے: مسلمانوں کویہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں، سو ایسا کیوں نہ کیا جاوے کہ اُن کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایاکرے؛ تاکہ باقی ماندہ لوگ دِین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں، اور تاکہ وہ قوم کوجب وہ اُن کے پاس واپس آویں ڈراویں؛ تاکہ وہ اِحتِیاط رکھیں۔ (بیان القرآن) حضرت عبداللہ بن مسعود[ایک نسخے میں :عبداللہ بن عباس]صفرماتے ہیں:﴿إِنْفِرُوْا خِفَافاً وَّثِقَالًا﴾ اور ﴿إِلَّاتَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً﴾ سے جوعموم معلوم ہوتا ہے، اُس کو ﴿مَا کَانَ الْمؤْمِنِیْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً﴾ نے منسُوخ کردیا۔ صحابۂ کرام ث کوحق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے جامِعِیَّت عطا فرمائی تھی، اور اُس وقت کے لیے یہ چیز نہایت ہی ضروری تھی کہ وہی ایک مختصر سی جماعت دِین کے سارے کام سنبھالنے والی تھی؛ مگر تابعین کے زمانے میں جب اسلام پھیل گیا اور مسلمانوں کی بڑی جماعت اور جَمعِیَّت ہوگئی، نیز صحابۂ کرام جیسی جامِعِیَّت بھی باقی نہ رہی، توہر ہر شعبۂ دین کے لیے پوری توجُّہ سے کام کرنے والے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے، مُحدِّثین کی مستقل جماعت بننی شروع ہوگئی، جن کاکام احادیث کاضَبط اور اُن کاپھیلانا تھا، فُقَہاکی علاحدہ جماعت ہوئی، صوفیا، قُرَّا، مُجاہِدین؛ غرض دِین کے ہر ہر شعبے کومستقل سنبھالنے والے پیدا ہوئے، اُس وقت کے لیے یہ ہی چیز مناسب اورضروری تھی، اگر یہ صورت نہ ہوتی توہر شعبے میں کمال اورترقی دُشوار تھی؛ اِس لیے کہ ہر شخص تمام چیزوں میں اِنتہائی کمال پیدا کرلے، یہ بہت دشوار