فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کبیر، حدیث: ۱۰۵۵۵، ج۱۰ ص ۲۸۱) (۳)عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ مَایُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ خَابَ وَخَسِرَ؛ وَإِنْ اِنْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَۃٍ قَالَ الرَّبُّ: اُنْظُرُوْا! هَلْ لِعَبْدِيْ مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَیُکَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ، ثُمَّ یَکُوْنُ سَائِرُ عَمَلِہٖ عَلیٰ ذٰلِكَ. (رواہ الترمذي، وحسنہ النسائي وابن ماجۃ، والحاکم وصححہ؛ کذا في الدر، وفي المنتخب بروایۃ الحاکم في الکني عن ابن عمر:’’أَوَّلُ مَاافتَرَضَ اللہُ عَلیٰ أُمَّتِي الصَّلَاۃُ الخَمْسُ، وَأَوَّلُ مَایُرفَعُ مِنْ أَعمَالِهِمْ الصَّلَاۃُ الخَمسُ‘‘. الحدیث بطولہ بمعنی حدیث الباب، وفیہ ذکرالصیام والزکاۃ نحو الصلاۃ. وفي الدر: أخرج أبویعلیٰ عن أنس رفعہ:’’أَوَّلُ مَاافْتَرَضَ اللہُ عَلَی النَّاسِ مِن دِینِهِمْ الصَّلَاۃَ، وَاٰخِرُ مَایَبْقِيْ الصَّلَاۃُ، وَأَوَّلُ مَایُحَاسَبُ بِہِ الصَّلَاۃُ، یَقُولُ اللہُ: اُنْظُرُوا فِي صَلَاۃِ عَبدِيْ، فَإنْ کَانَتْ تَامَّۃً کُتِبَتْ تَامَّۃً، وَإِنْ کَانَتْ نَاقِصَۃً قَالَ: اُنْظُرُوْا هَلْ لَہُ مِنْ تَطَوُّعٍ؟‘‘ الحدیث. فیہ ذکر الزکاۃ والصدقۃ، وفیہ أیضا؛ أخرج ابن ماجۃ والحاکم عن تمیم الداري مرفوعاً: ’’أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہِ العَبدُ یَومَ القِیَامَۃِ صَلَاتُہُ‘‘، الحدیث. وفي آخرہ: ’’ثُمَّ الزَّکَاۃُ مِثلَ ذٰلِكَ ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعْمَالُ حَسبَ ذٰلِكَ‘‘. وعزاہ السیوطي في الجامع إلیٰ أحمد وأبي داود والحاکم وابن ماجہ، ورقم لہ بالصحیح) ترجَمہ:نبیٔ اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ: قِیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیاجائے گا، اگر نمازاچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب ہوگا اور بامراد، اور اگرنماز بے کار ثابت ہوئی تو وہ نامراد، خسارے میں ہوگا۔ اور اگر کچھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشادِ خدا وندی ہوگا کہ: دیکھو! اِس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کوپورا کردیاجائے؟ اگرنکل آئِیں تو اُن سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی، اِس کے بعد پھراِسی طرح باقی اعمال: روزہ، زکوۃ، وغیرہ کا حساب ہوگا۔ مِیزان: ترازُو۔ سَہَل: آسان۔ چارۂ کار: چھُٹکارا۔ فائدہ:اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ، آدمی کو نفلوں کاذخیرہ بھی اپنے پاس کافی رکھنا چاہیے، کہ اگرفرضوں میں کچھ کوتاہی نکلے تو مِیزان پوری ہوجائے، بہت سے لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ: ’’اَجی! ہم سے فرض ہی پورے ہوجائیں توبہت غنیمت ہے، نفلیں پڑھنا تو بڑے آدمیوں کا کام ہے‘‘، اِس میں شک نہیں کہ فرض ہی اگر پورے پورے ہوجائیںتوبہت کافی ہے؛ لیکن اُن کابالکل پورا پورا ادا ہوجاناکونسا سَہَل کام ہے؟ کہ ہر ہر چیز بالکل پوری ادا ہوجائے، اور جب تھوڑی بہت کوتاہی ہوتی ہی ہے تو اُس کے پورا کرنے کے لیے نفلوں بغیر چارۂ کار نہیں۔ ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون زیادہ وَضاحت سے آیا ہے، ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے عبادات میں سب سے پہلے نماز کوفرض فرمایا ہے، اور سب سے پہلے اعمال میں سے نماز ہی پیش کی جاتی ہے، اور سب سے پہلے قِیامت میں نماز ہی کاحساب ہوگا، اگرفرض نمازوں میں کچھ کمی رہ گئی تو نفلوں سے اُس کوپوراکیاجائے گا، اور پھر اُس کے بعد اِسی طرح روزوں کا حساب کیا جائے گا،اور فرض روزوں میں جوکمی ہوگی وہ نفل روزوں سے پوری کردی جائے گی، اور پھر زکوۃ کا حساب اِسی طریقے سے ہوگا، اِن سب چیزوں میں نوافل کو ملاکر بھی اگر نیکیوں کاپَلَّہ بھاری ہوگیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہوجائے گا؛ ورنہ جہنَّم میں پھینک دیاجائے گا۔ (۔۔۔۔۔۔۔) خود نبیٔ اکرم ﷺکامعمول یہی تھا کہ، جوشخص مسلمان ہوتا سب سے