فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اللَّیْلِ وَاٰنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ مَالًا، فَهُوَ یُنْفِقُ مِنہُ اٰنَاءَ اللَّیلِ وَاٰنَاءَ النَّهَارِ. (رواہ البخاري، والترمذي، والنسائي) ترجَمہ:ابن عمرصسے حضورِ اقدس ﷺکا یہ ارشاد منقول ہے کہ: حسد دو شخصوں کے سِوا کسی پر جائز نہیں: ایک وہ جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی اور وہ دن رات اُس میں مشغول رہتا ہے، دوسرے وہ جس کو حق سُبحَانَہٗنے مال کی کثرت عطا فرمائی اور وہ دن رات اُس کوخرچ کرتا ہے۔ مُباح: جائز۔ عَلیٰ سَبِیلِ الفَرضِ وَالتَّقدِیْر: مان لینے کے طریقے پر۔ فائدہ:قرآن شریف کی آیات اور احادیثِ کثیرہ کے عموم سے حسد کی بُرائی اور ناجائز ہونا مُطلقاً معلوم ہوتاہے، اِس حدیث شریف سے دو آدمیوں کے بارے میں جواز معلوم ہوتا ہے؛ چوںکہ وہ روایات زیادہ مشہور وکثیر ہیں؛ اِس لیے عُلَما نے اِس حدیث کے دو مطلب اِرشاد فرمائے ہیں: اول یہ کہ، حسد اِس حدیث شریف میں رَشک کے معنیٰ میں ہے، جس کو عربی میں ’’غِبْطَہْ‘‘ کہتے ہیں، حسد اور غِبْطَہْ میں یہ فرق ہے کہ، حسد میں کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزوہوتی ہے کہ اُس کے پاس یہ نعمت نہ رہے، خواہ اپنے پاس حاصل ہو یا نہ ہو؛ چوںکہ حسد بِالاجماع حرام ہے؛ اِس لیے عُلَمانے اِس لفظِ حسد کو مجازاً غِبطہ کے معنیٰ میں ارشاد فرمایا ہے، جو دُنیوی امور میں مُباح ہے اور دینی اُمور میں مستحب۔ دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ، بسا اوقات کلام عَلیٰ سَبِیلِ الفَرضِ وَالتَّقدِیْر مُستعمَل ہوتاہے، یعنی اگرحسد جائز ہوتا تو یہ دو چیز ایسی تھیں کہ اُن میں جائز ہوتا۔ (۶) عَنْ أبِي مُوسیٰ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّۃِ، رِیْحُهَا طَیِّبٌ وَطَعْمُهَا طَیِّبٌ؛ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِيْ لَایَقرَأُ الْقُراٰنَ مَثَلُ التَّمَرَۃِ، لَارِیحَ لَهَا وَطَعمُهَا حُلوٌ؛ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي لَایَقرَأُ القُراٰنَ کَمَثَلِ الحَنْظَلَۃِ، لَیْسَ لَهَا رِیحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ؛ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي یَقرَأُ الْقُراٰنَ مَثَلُ الرَّیحَانَۃِ، رِیحُهَا طَیِّبٌ وَطَعمُهَا مُرٌّ. (رواہ البخاري، ومسلم، والنسائي، وابن ماجہ) ترجَمہ:ابوموسیٰص نے حضورِاقدس ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: جو مسلمان قرآن شریف پڑھتا ہے اُس کی مثال تُرَنج کی سی ہے، کہ اُس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزا بھی لذیذ، اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اُس کی مثال کھجور کی سی ہے، کہ خوشبو تو کچھ نہیں؛ مگر مزا شیریں ہوتا ہے، اور جومُنافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اُس کی مثال حَنظَل کے پھل کی سی ہے، کہ مزا کڑوااور خوشبو کچھ نہیں، اور جومنافق قرآن شریف پڑھتا ہے اُس کی مثال خوشبو دار پھول کی سی ہے، کہ خوشبو عمدہ اور مزا کڑوا۔ شیریں: میٹھا۔ حَلاوت: مِٹھاس۔ نِکات: باریکیاں۔ مُشِیر: اشارہ کرنے والا۔ہم نشیں: دوست۔ نَشِست وبَرخاست: اُٹھنا بیٹھنا۔ فائدہ:مقصود اِس حدیث سے غیرمحسوس شیٔ کو محسوس کے ساتھ تشبیہ دینا ہے؛ تاکہ ذہن میں فرق کلامِ پاک کے پڑھنے اورنہ پڑھنے میں سَہولت سے آجاوے، ورنہ ظاہر ہے کہ کلامِ پاک کی حَلاوت اور مَہک سے کیا نسبت تُرنج وکھجور کو،اگرچہ اِن اشیاء کے ساتھ تشبیہ میں خاص نِکات بھی ہیں جو علومِ