فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مسعودص کا بے چین ہوجانا ابتدائے اسلام میں نماز میں بولناجائز تھا پھرمَنسُوخ ہوگیا، حضرت عبداللہ بن مسعود ص حاضرِ خدمت ہوئے، حضورﷺ نماز پڑھ رہے تھے، اُنھوں نے جب حسبِ معمول سلام کیا، چوںکہ نماز میں بولنا مَنسُوخ ہوچکاتھا، حضورﷺ نے جواب نہ دیا، وہ فرماتے ہیں کہ: حضور ﷺکے جواب نہ دینے سے نئی اور پُرانی باتیں یاد آکر مختلف خَیالات نے مجھے آگھیرا،کبھی سوچتا: فلاں بات سے ناراضی ہوئی، کبھی خَیال کرتا کہ: فلاں بات پیش آئی؛ آخر حضور ﷺنے جب سلام پھیرا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’نماز میں کلام کرنامنسوخ ہوگیاہے؛ اِس لیے مَیں نے سلام کا جواب نہیں دیاتھا‘‘، تب جان میں جان آئی۔ (۶) حضرت سُہیل بن حَنظَلِیَّہ صکی عادت اور خُریم صکابال کٹوا دینا یکسُو: الگ۔ غَیبت: غیرموجودگی۔ دِمشق میں سُہیل بن حَنظلیہ صنامی ایک صحابی رہا کرتے تھے جو نہایت یکسُو تھے، بہت کم کسی سے مِلتے جُلتے تھے، اورکہیں آتے جاتے نہ تھے، دن بھر نماز میں مشغول رہتے یاتسبیح اور وَظائف میں، مسجد میں آتے جاتے راستے میں حضرت ابوالدرداء ص پر- جو مشہور صحابی ہیں- گزر ہوتا، ابوالدرداء صفرماتے کہ: کوئی کلمۂ خیر سناتے جاؤ، تمھیں کوئی نقصان نہیں ہمیں نفع ہوجائے گا، تووہ کوئی واقعہ حضور ﷺ کے زمانے کا یاکوئی حدیث سنادیتے، ایک مرتبہ اِسی طرح جارہے تھے، ابوالدرداء ص نے معمول کے موافق درخواست کی کہ: کوئی کلمۂ خیر سناتے جائیں، کہنے لگے کہ: ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا کہ: ’’خُریم اَسَدی اچھاآدمی ہے اگر دو باتیں نہ ہوں: ایک سر کے بال بہت بڑے رہتے ہیں، دوسرے: لُنگی ٹخنوں سے نیچے باندھتا ہے‘‘، اُن کو حضورﷺ کایہ ارشادپہنچا، فوراً چاقو لے کربال کانوں کے نیچے سے کاٹ دیے، اور لنگی آدھی پنڈلی تک باندھنا شروع کردی۔ (ابوداؤد، باب ماجاء فی اسبال الازار، ص ۵۶۵) فائدہ: بعض روایات میں آیا ہے کہ: خود حضورِاقدس ﷺ نے اُن سے اِن دونوں باتوں کو ارشاد فرمایا، اور اُنھوں نے قَسم کھاکر کہا کہ: اب سے نہ ہوگی؛ مگر دونوں روایتوں میں کچھ اِشکال نہیں، یہ ہوسکتا ہے کہ خود اُن سے بھی ارشادفرمایا ہو، اور غَیبت میں بھی ارشاد فرمایا ہو، جو سننے والے نے اُن سے جاکر عرض کردیا۔ (۷) حضرت ابن عمر کا اپنے بیٹے سے نہ بولنا