فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کھڑے ہوئے سنتے رہے۔ ابو موسیٰ اشعری صکا قرآن شریف سنا تو تعریف فرمائی۔ تلاوت بلند آواز سے اور آہستہ (۳۱) عَن عُقبَۃَ بنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَلجَاهِرُ بِالقُراٰنِ کَالجَاهِرِ بِالصَّدَقَۃِ، وَالمُسِرُّ بِالقُراٰنِ کَالمُسِرِّ بِالصَّدَقَۃِ. (رواہ الترمذي وأبوداود والنسائي والحاکم، وقال: علیٰ شرط البخاري) ترجَمہ:عُقبہ بن عامرص نے حضورِ اکرم ﷺسے نقل کیا ہے کہ: کلام ُاللہ کا آواز سے پڑھنے والا علانیہ صدقہ کرنے والے کے مُشابہ ہے، اورآہستہ پڑھنے والا خُفیہ صدقہ کرنے والے کی مانند ہے۔ علانیہ: دِکھلاکر۔ مَخفِی: چھُپاکر۔رِیا: دِکھلاوا۔ خَلَط: مِل۔ حُجت: تکرار۔ فائدہ:صدقہ بعض اوقات علانیہ افضل ہوتا ہے جس وقت دوسروں کی ترغیب کا سبب ہو، یا اَور کوئی مَصلَحت ہو، اور بعض اوقات مَخفِی افضل ہوتا ہے جہاںرِیا کا شبہ ہو یا دوسروں کی تذلیل ہوتی ہو، وغیرہ وغیرہ؛ اِسی طرح کلامُ اللہ شریف کابعض اوقات میں آواز سے پڑھنا افضل ہے جہاں دوسروں کی ترغیب کا سبب ہو، اوراِس میں دوسرے کے سننے کا ثواب بھی ہوتا ہے، اور بعض اوقات آہستہ پڑھنا افضل ہوتا ہے جہاں دوسروں کو تکلیف ہو، یا رِیا کا احتمال ہو، وغیرہ وغیرہ؛ اِسی وجہ سے زور سے اور آہستہ دونوں طرح پڑھنے کی مستقل فضیلتیں بھی آئی ہیں، کہ بعض اوقات یہ مناسب تھا، اور بعض وقت وہ افضل تھا۔ آہستہ پڑھنے کی فضیلت پر بہت سے لوگوں نے خود اِس صدقے والی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔ ’’بَیہَقی‘‘ نے’’کِتَابُ الشُّعَب‘‘ میں (مگر یہ روایت بہ قواعدِمُحدِّثین ضعیف ہے)حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَاسے نقل کیا ہے کہ: آہستہ کا عمل علانیہ کے عمل سے ستّر حصہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جابرص نے حضورِاقدس ﷺسے نقل کیا ہے کہ: پکار کر اِس طرح مت پڑھو کہ ایک کی آواز دوسرے کے ساتھ خَلَط ہوجائے۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسجدِ نبوی میں ایک شخص کو آواز سے تلاوت کرتے سنا تو اُس کو منع کرادیا، پڑھنے والے نے کچھ حُجت کی تو عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ: اگر اللہ کے واسطے پڑھتا ہے تو آہستہ پڑھ، اور اگر لوگوں کی خاطر پڑھتا ہے توپڑھنا بے کار ہے۔ اِسی طرح حضورﷺ سے پکارکر پڑھنے کا ارشاد بھی نقل کیا گیا۔ شرح احیاء میں دونوں طرح کی روایات وآثار ذکر کیے گئے۔ (۳۲) عَن جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّﷺ: اَلقُراٰنُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ، وَمَاحِلٌ مُصَدَّقٌ، مَن جَعَلَہٗ أَمَامَہٗ قَادَہٗ إلَی الجَنَّۃِ، وَمَن جَعَلَہٗ خَلفَ ظَهرِہٖ سَاقَطَہٗ إلَی النَّارِ. (رواہ ابن حبان والحاکم مطولًا، وصححہ) ترجَمہ: جابرصنے حضورِاقدس ﷺ سے نقل کیا کہ: قرآن پاک ایک ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قبول کی گئی، اور ایسا جھگڑالُو ہے کہ جس کا جھگڑا تسلیم کرلیا گیا، جو شخص اِس