فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تمام مخلوق پر۔ فائدہ:یعنی جس شخص کو قرآنِ پاک کے یاد کرنے یا جاننے اور سمجھنے میں اِس درجہ مشغولی ہے کہ، کسی دوسری دعا وغیرہ کے مانگنے کا وقت نہیں ملتا، مَیں دعا مانگنے والوں کے مانگنے سے بھی افضل چیز اُس کو عطا کروںگا۔ دنیا کا مُشاہَدہ ہے کہ جب کوئی شخص شیرینی وغیرہ تقسیم کررہا ہو، اور کوئی مٹھائی لینے والا اُس کے ہی کام میں مشغول ہو اور اُس کی وجہ سے نہ آسکتا ہو، تو یقینا اُس کا حصہ پہلے ہی نکال لیا جاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اِسی موقع پر مذکور ہے کہ: مَیں اُس کو شکرگزار بندوں کے ثواب سے افضل ثواب عطا کروںگا۔ (۳)عَن عُقْبَۃَ بنِ عَامِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ -وَنَحنُ فِي الصُّفَّۃِ- فَقَالَ: أَیُّکُمْ یُحِبُّ أن یَّغدُوَ کُلَّ یَومٍ إلیٰ بُطحَانَ أوِ الْعَقِیقِ، فَیَأْتِيَ بِنَاقَتَینِ کَومَاوَینِ فِي غَیرِ إِثْمٍ وَلَاقَطِیعَۃِ رَحمٍ؟ فَقُلنَا: یَارَسُولَ اللّٰهِ!کُلُّنَا نُحِبُّ ذٰلِكَ، قَالَ: أَفَلَا یَغْدُوَ أَحَدُکُمْ إلی المَسجِدِ، فَیُعَلِّمُ أو یَقرَأُ اٰیَتَینِ مِن کِتَابِ اللہِ خَیرٌ لَّہٗ مِن نَاقَتَینِ، وَثَلٰثٌ خَیرٌ لَّہٗ مِن ثَلَاثٍ، وَأربَعٌ خَیرٌ لَّہٗ مِن أَربَعٍ، وَمِن أَعدَادِهِنَّ مِنِ الإبِلِ. (رواہ مسلم وأبوداود) ترجَمہ: عُقبہ بن عامرصکہتے ہیں کہ: نبیٔ کریم ﷺ تشریف لائے،ہم لوگ صُفَّہ میں بیٹھے تھے، آپ ﷺنے فرمایا کہ: تم میں سے کون شخص اِس کو پسند کرتا ہے کہ علی الصُّبح بازارِ بُطحان یا عَقِیق میں جاوے، اور دو اُونٹنیاں عمدہ سے عمدہ بِلاکسی قسم کے گناہ اور قطع رَحمی کے پکڑ لائے؟ صحابہ ث نے عرض کیا کہ: اِس کو تو ہم میں سے ہر شخص پسند کرے گا، حضورﷺنے فرمایا کہ: مسجد میں جاکر دو آیتوں کا پڑھنایا پڑھادینا دو اونٹنیوں سے، اور تین آیت کا تین اونٹنیوں سے، اِسی طرح چار کاچار سے افضل ہے، اور اُن کے برابر اونٹوں سے افضل ہے۔ نَشِست گاہ: بیٹھنے کی جگہ۔ کوہان: اونٹ کی پیٹھ کی بلندی۔ فَربہ: موٹا۔ ہَفت اِقلیم: سات ولایتیں، پوری دنیا۔ جبراً : زبردستی۔ بجُز: سِوائے۔ بار: بوجھ۔ مُحتَمِل: شامل۔ مافَوق: زیادہ۔ گِروِیدہ: عاشق۔ فائدہ:’’صُفَّہ‘‘ مسجدِ نبوی میں ایک خاص مُعیَّن چبوترے کا نام ہے، جو فقرائے مُہاجِرین کی نَشِست گاہ تھی، اصحابِ صُفَّہ کی تعداد مختلف اوقات میں کم وبیش ہوتی رہتی تھی، علامہ سِیوطیؒ نے ایک سو نام گِنوائے ہیں، اور مستقل رسالہ اُن کے اسمائے گرامی میں تصنیف کیا ہے۔ ’’بُطحان‘‘ اور ’’عَقِیق‘‘ مدینۂ طیَّبہ کے پاس دو جگہ ہیں جہاں اونٹوں کا بازار لگتا تھا، عرب کے نزدیک اونٹ نہایت پسندیدہ چیز تھی، بالخصوص وہ اونٹنی جس کا کوہان فَربہ ہو۔ ’’بغیر گناہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ: بے محنت چیز اکثر یا چھین کرکسی سے لی جاتی ہے، یا یہ کہ میراث وغیرہ میں کسی رشتے دار کے مال پر قبضہ کرلے، یا کسی کامال چُرالے؛ اِس لیے حضورِ اکرم ﷺنے اِن سب کی نفی فرمادی، کہ بالکل بِلامَشقَّت اور بدونِ کسی گناہ کے حاصل کرلینا جس قدر پسندیدہ ہے، اُس سے زیادہ بہتر وافضل ہے چند آیات کا حاصل کرلینا۔ اور یقینی امر ہے کہ، ایک دو اونٹ درکِنار، ہَفت اِقلیم کی سلطنت بھی اگر کسی شخص کو مل جاوے تو کیا؟آج