فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نوویؒ نے اِس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ: فضیلت آدمیوں کے لحاظ سے مختلف ہے، بعض کے لیے دیکھ کر پڑھنا افضل ہے جس کو اُس میں تدبُّروتفکُّر زیادہ حاصل ہوتا ہو، اور جس کو حفظ میں تدبُّر زیادہ حاصل ہوتا ہو اُس کے لیے حفظ پڑھنا افضل ہے۔ حافظؒ نے بھی ’’فتح الباری‘‘ میں اِسی تفصیل کو پسند کیا ہے۔ کہا جاتاہے کہ: حضرت عثمان ص کے پاس کثرتِ تلاوت کی وجہ سے دو کلام مجید پھٹے تھے۔ عَمرو بن مَیمُونؒ نے شرحِ اِحیاء میں نقل کیا ہے کہ: جو شخص صبح کی نماز پڑھ کرقرآن شریف کھولے اور بقدر سو آیت کے پڑھ لے، تمام اہلِ دنیا کی بہ قدر اُس کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ قرآن شریف کا دیکھ کر پڑھنا نگاہ کے لیے مفید بتلایا جاتا ہے، ابوعُبیدؒ نے حدیثِ مسلسل نقل کی ہے، جس میں ہر روای نے کہا ہے کہ: مجھے آنکھوں کی شکایت تھی تو اُستاد نے قرآن شریف دیکھ کر پڑھنے کو بتلایا۔ حضرت امام شافعی صاحبؒ بسا اوقات عشاء کے بعد قرآن شریف کھولتے تھے اور صبح کی نمازکے وقت بند کرتے تھے۔ دِلوں کے زَنگ کی صفائی تلاوتِ کلامُ اللہ سے (۱۹) عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: إنَّ هٰذِہِ القُلُوبُ تَصدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الحَدِیدُ إذَا أَصَابَہُ المَاءُ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ! وَمَا جِلَا ئُهَا؟ قَالَ: کَثرَۃُ ذِکرِ المَوتِ، وَتِلَاوَۃِ القُراٰنِ. (رواہ البیهقي في شعب الإیمان) ترجَمہ: عبداللہ بن عمرصنے حضورِ اکرم ﷺسے نقل کیا ہے کہ: دِلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی لگنے سے زَنگ لگتا ہے، پوچھا گیا کہ: حضور! اُن کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: موت کو اکثریاد کرنا، اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا۔ صَیقَل: صفائی۔ دُھندلا: تاریک۔ اِنعِکاس: عکس۔ شُدہ شُدہ: ہوتے ہوتے۔ مانِع: رُکاوَٹ۔ فائدہ:یعنی گناہوں کی کثرت اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی یاد سے غفلت کی وجہ سے دِلوں پر بھی زَنگ لگ جاتا ہے، اور کلامِ پاک کی تلاوت اور موت کی یاد اُن کے لیے صَیقَل کا کام دیتی ہے۔ دل کی مثال ایک آئینے کی سی ہے، جس قدر وہ دُھندلا ہوگا مَعرفَت کا اِنعِکاس اُس میں کم ہوگا، اور جس قدر صاف اور شَفَّاف ہوگا اُسی قدر اُس میں معرفت کا اِنعِکاس واضح ہوگا؛ اِسی لیے آدمی جس قدر معاصیٔ شہوانیہ یا شیطانیہ میں مبتلا ہوگا اُسی قدر مَعرفت سے دُور ہوگا، اور اِسی آئینے کے صاف کرنے کے لیے مشائخِ سلوک رِیاضت ومُجاہَدات، اَذکار واَشغال تلقین فرماتے ہیں۔ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ: جب بندہ گناہ کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اُس کے قلب میں پڑجاتا ہے، اگر وہ سچی توبہ کرلیتا ہے تو وہ نقطہ زائل ہوجاتا ہے، اور اگر دوسرا گناہ کرلیتا ہے تو دوسرا نقطہ پیدا ہوجاتا ہے، اِسی طرح سے اگر گناہوں میں بڑھتا رہتا ہے تو شُدہ شُدہ اُن نقطوں کی کثرت سے دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، پھر اُس قلب میں خیر کی طرف رَغبت ہی نہیں رہتی؛ بلکہ شر ہی کی طرف مائِل ہوتا ہے۔ اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا مِنہُ. اِسی کی طرف قرآنِ پاک کی اِس آیت میں اشارہ