فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگئے تو مَیں نے کہا کہ: حضرت سعیدؒ نے اپنی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا ہے، اور اِس وقت وہ اُس کو خود ہی پہنچاگئے ہیں، سب کو بڑا تعجب ہوا، کہنے لگے: واقعی وہ تمھارے گھر میں ہے، مَیں نے کہا: ہاں! اِس کا چرچا ہوا، میری والدہ کو خبر ہوئی، وہ بھی اُسی وقت آگئیں، اور کہنے لگیں کہ: اگر تین دن تک تُونے اِس کو چھیڑا تو تیرا منھ نہ دیکھوںگی، ہم تین دن میں اِس کی تیاری کرلیں، تین دن کے بعد جب مَیں اُس لڑکی سے مِلا تو دیکھا: نہایت خوب صورت، قرآن شریف کی بھی حافظ، اور سنتِ رسول سے بھی بہت زیادہ واقف، شوہر کے حقوق سے بھی بہت زیادہ باخبر، ایک مہینے تک نہ تو حضرت سعیدؒ میرے پاس آئے نہ مَیں اُن کی خدمت میں گیا، ایک ماہ کے بعد مَیں حاضر ہوا تو وہاں مجمع تھا، مَیں سلام کرکے بیٹھ گیا، جب سب چلے گئے توفرمایا: اُس آدمی کو کیسا پایا؟ مَیں نے عرض کیا: نہایت بہتر ہے کہ دوست دیکھ کر خوش ہوں، دشمن جَلیں، فرمایا: اگر کوئی بات ناگوار ہوتو لکڑی سے خبرلینا، مَیں واپس آگیا تو ایک آدمی کو بھیجا جو بیس ہزار درہم (تقریباً پانچ ہزار روپیہ) مجھے دے گیا۔اُس لڑکی کو عبدالملک بن مَروان بادشاہ نے اپنے بیٹے ولید کے لیے -جو وَلیٔ عَہدبھی تھا- مانگا تھا؛ مگر حضرت سعیدؒ نے عُذر کردیا تھا، جس کی وجہ سے عبدالملک ناراض بھی ہوا، اور ایک حِیلے سے حضرت سعیدؒ کے سوکوڑے سخت سردی میں لگوائے، اور پانی کا گھڑا اُن پرگِروایا۔(حلیۃ الاولیاء۲؍۱۶۷) (۱۵) عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: مَن قَالَ: ’’سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ،وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاللہُ أَکبَرُ‘‘ کُتِبَتْ لَہٗ بِکُلِّ حَرفٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمَن أَعَانَ عَلیٰ خُصُومَۃٍ بَاطِلٍ لَم یَزَلْ فِيسَخطِ اللہِ حَتّٰی یَنزِعَ،وَمَن حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُونَ حَدٍّمِن حُدُودِاللہِ فَقَد ضَادَّ اللہَ فِي أَمرِہٖ، وَمَن بَهَّتَ مُؤْمِناًأَومُؤْمِنَۃً حَبَسَہُ اللہُ فِيرَدغَۃِ الخِبَالِ یَومَ القِیَامَۃِ حَتّٰی یَخرُجَ مِمَّا قَالَ وَلَیسَ بِخَارِجٍ. (رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط، ورجالهما رجال الصحیح؛ کذا في مجمع الزوائد. قلت: أخرجہ أبوداود بدون ذکر التسبیح فیہ) ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اللہُ أَکبَرُ پڑھے، ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملیںگی، اور جو شخص کسی جھگڑے میں ناحق کی حِمایت کرتا ہے وہ اللہ کے غُصے میں رہتا ہے جب تک کہ اُس سے توبہ نہ کرے، اور جو اللہ کی کسی سزا میں سفارش کرے اور شرعی سزا کے ملنے میں حارِج ہو وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے، اور جو شخص کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے وہ قِیامت کے دن رَدغَۃُ الخِبال میں قید کیاجائے گا یہاںتک کہ اُس بہتان سے نکلے، اور کس طرح اُس سے نکل سکتا ہے!!۔ حِمایت: طرف داری۔ حارِج: رُکاوَٹ۔ کُنبہ: خاندان۔ اَذیَّت: تکلیف۔ چَرب لِسانی: میٹھی باتیں۔ فائدہ:ناحق کی حِمایت آج کل ہماری طبیعت بن گئی ہے، ایک چیز کو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم غلَطی پر ہیں؛ مگر رشتے داروں کی طرف داری ہے، پارٹی کا سوال ہے، لاکھ اللہ کے غصے میں داخل ہوں، اللہ کی ناراضگی ہو، اُس کا عِتاب ہو؛ مگر کُنبہ، بِرادری کی بات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، ہم اُس ناحق