فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
قبضے میں آجائے، کہ بعد میں کوئی کسی کو نہیں پوچھتا، آل اولاد، بیوی بچے؛ سب تھوڑے بہت دنوں روکر چپ ہوجائیںگے، ایسابہت کم ہوتا ہے کہ مرنے والے کے لیے بھی کچھ صدقہ خیرات کردیں اور اُس کویاد رکھیں۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کاارشاد وارِد ہے: ’’آدمی کہتا ہے کہ: میرامال،میرامال؛ حالاںکہ اُس کامال صرف وہ ہے جوکھالیا اور ختم کر دیا، یا پہن لیااور پُرانا کردیا، یا اللہ کے راستے میںخرچ کردیا اور اپنے لیے خزانے میں جمع کردیا، اِس کے سِوا جوکچھ ہے وہ دوسروں کامال ہے، لوگوں کے لیے جمع کررہا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے: حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے ایساکون شخص ہے جس کواپنے وارث کامال اپنے سے اچھا لگے‘‘؟ صحابہ نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! ایساکون ہوگا جس کو دوسرے کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو؟ حضور ﷺنے فرمایاکہ: ’’اپنامال صرف وہی ہے جو آگے بھیج دیاجائے، اور جو چھوڑ دیا وہ وارث کامال ہے‘‘۔ (مشکوۃ، ۲؍۹۰ ) (۱۱)حضرت جعفرص اور ان کے صاحبزادے عبداللہ ص کی فَیَّاضی تعزِیت: ماتم پُرسی۔ نذرانے: ہدیہ۔ فروخت: بیچنا۔ کارِندوں: کام کرنے والوں۔ حضرت جعفر طَیَّارص حضورِ اقدس ﷺکے چچازادبھائی اورحضرت علیص کے حقیقی بھائی ہیں، اوَّل تویہ سارا ہی گھرانا اور خاندان؛ بلکہ آل اولاد سَخاوت، کَرم، شُجاعت، بہادری میں مُمتاز رہے، اور ہیں؛ لیکن حضرت جعفرص مساکین کے ساتھ خاص تعلُّق رکھتے تھے، اور زیادہ اُٹھنا، بیٹھنا غُرَبا ہی کے ساتھ ہوتاتھا۔ کُفَّار کی تکالیف سے تنگ ہوکر اوَّل حَبشہ کی ہجرت کی، اور کُفَّار نے وہاں بھی پیچھا کیا تو نَجَّاشی کے یہاں اپنی صفائی پیش کرناپڑی، جس کاقصہ پہلے باب کے ۱۰؍ پرگزرا، وہاں سے واپسی پر مدینۂ طَیِّبہ کی ہجرت کی، اور ’’غزوۂ مُوتہ‘‘ میں شہید ہوئے جس کا قِصَّہ اَگلے باب کے ختم پرآرہا ہے، اِن کے انتقال کی خبر پر حضورﷺ اِن کے گھرتعزِیت کے طور پرتشریف لے گئے، اور اِن کے صاحبزادوں: عبداللہ اورعون اورمحمدکوبلایا، وہ سب کم عمرتھے، اُن کے سرپرہاتھ پھیرا اور برکت کی دعافرمائی۔ ساری ہی اولاد میں باپ کارنگ تھا؛ مگرعبداللہ ص میں سخاوت کامضمون بہت زیادہ تھا، اِسی وجہ سے اُن کالقب ’’قُطُبُ السَّخَاءِ‘‘ (سخاوت کاقُطُب) تھا، سات برس کی عمر میں حضورِ اقدس ﷺ سے بیعت ہوئی۔ اِن ہی عبداللہ بن جعفرصسے کسی شخص نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ کے یہاں سفارش کرائی، اُن کی سفارش پر اُس کاکام ہوگیا تو اُس نے نذرانے کے طور پر چالیس ہزار درہم بھیجے، اُنھوں نے واپس کردیے کہ ہم لوگ اپنی نیکی کو فروخت نہیں کیا کرتے۔ ایک مرتبہ کہیں سے دوہزار درہم نذرانے میں آئے، اُسی مجلس میں تقسیم فرمادیے۔ ایک تاجر بہت سی شکر لے کر آیا؛ مگربازار میں