فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
قَالَ: أَکثِرُوْا مِن قَولِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. (رواہ أحمد والطبراني، وإسناد أحمد حسن؛ کذا في الترغیب. قلت: ورواہ الحاکم في صحیحہ، وقال: صحیح الإسناد، وقال الذهبي: صدقۃ (الراوي) ضعفوہ، قلت: هو من رواۃ أبي داود والترمذي، وأخرج لہ البخاري في الأدب المفرد، وقال في التقریب: صدوق لہ أوهام، وذکرہ السیوطي في الجامع الصغیر بروایۃ أحمد والحاکم، ورقم لہ بالصحۃ. وفي مجمع الزوائد رواہ أحمد، وإسنادہ جید، وفي موضع اٰخر رواہ أحمد والطبراني، ورجال أحمد ثقات) ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اپنے ایمان کی تَجدِید کرتے رہا کرو یعنی تازہ کرتے رہا کرو، صحابہث نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! ایمان کی تجدید کس طرح کریں؟ ارشاد فرمایا کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو کثرت سے پڑھتے رہاکرو۔ فائدہ: ایک روایت میں حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ: ایمان پُرانا ہوجاتا ہے جیسا کہ کپڑا پُرانا ہوجاتا ہے؛ اِس لیے اللہ جَلَّ شَانُہٗسے ایمان کی تجدید مانگتے رہا کرو۔ (طبرانی، ۱؍۵۷) پُرانے ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ، مَعاصی سے قوَّتِ اِیمانِیَّہ اور ایمان جاتا رہتا ہے۔ زَنگ آلُود: زنگ لگا ہوا۔ سِرایت: اندر جانا۔ کثرتِ اِختِلاط: زیادہ مَیل جول۔ اکَڑ: گھمنڈ۔ چناںچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو ایک سِیاہ نشان (دَھبَّہ) اُس کے دل میں ہوجاتا ہے، اگر وہ سچی توبہ کرلیتا ہے تو وہ نشان دُھل جاتا ہے، ورنہ جَما رہتا ہے، اور پھر جب دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نشان ہوجاتاہے، اِسی طرح سے آخر دل بالکل کالا ہوجاتا اور زَنگ آلُود ہوجاتا ہے، جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے سورۂ تطفیف میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿کَلَّا بَلْسکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ﴾ (ترمذی،ابواب التفسیر،سورۃ ویل للمطففین، ۲؍۱۷۱، حدیث: ۳۳۳۴) اِس کے بعد اُس کے دل کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ حق بات اُس میں اَثر اور سِرایت ہی نہیں کرتی۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: چار چیزیں آدمی کے دل کو برباد کردیتی ہے: اَحمقوں سے مُقابَلہ، گناہوں کی کثرت، عورتوں کے ساتھ کثرتِ اِختِلاط، اورمُردہ لوگوں کے پاس کثرت سے بیٹھنا؛ کسی نے پوچھا: مُردوں سے کیامراد ہے؟ فرمایا: ہر وہ مال دار جس کے اندر مال نے اکَڑ پیدا کردی ہو۔(دُرِّمنثور) (۸) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَکثِرُوا مِن شَهَادَۃِ أَن لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ قَبلَ أَن یُحَالَ بَینَکُم وَبَینَهَا. (رواہ أبویعلیٰ بإسناد جید قوي، کذا في الترغیب. وعزاہ في الجامع إلیٰ أبي یعلیٰ وابن عدي في الکامل، ورقم لہ بالضعف، وزاد: ’’لَقِّنُوْهَا مَوْتَاکُمْ‘‘. وفي مجمع الزوائد: رواہ أبویعلیٰ، ورجالہ رجال الصحیح غیرضمام، وهو ثقۃ) ترجَمہ:حضورِ اقدس ﷺکاارشاد ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرارکثرت سے کرتے رہا کرو قَبل اِس کے کہ ایسا وقت آئے کہ تم اِس کلمے کونہ کہہ سکو۔ تُخم:بیج۔ وَسِیع: زیادہ۔ فائدہ: یعنی موت حائل ہوجائے، کہ اُس کے بعد کسی عمل کا بھی وقت نہیں رہتا، زندگی کا زمانہ بہت ہی تھوڑا سا ہے، اور یہ ہی عمل کرنے کا اورتُخم بونے