فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
میں کہہ رہاتھا؛ مگر حضرت زیدصنے جاکر حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کردیا، حضرت عمر ص نے درخواست بھی کی کہ: اِس کافر کی گردن اُڑا دی جائے؛ مگر حضور ﷺ نے اِجازت مَرحَمَت نہ فرمائی، عبداللہ بن اُبی کو جب اِس کی خبر ہوئی کہ حضور ﷺ تک یہ قِصَّہ پہنچ گیا ہے تو حاضرِ خدمت ہوکر جھوٹی قَسمیں کھانے لگا، کہ مَیں نے کوئی لفظ ایسا نہیں کہا، زید صنے جھوٹ نقل کردیا، انصار کے کچھ لوگ بھی حاضرِخدمت تھے، اُنھوں نے بھی سفارش کی کہ: یارسولَ اللہ! عبداللہ قوم کاسردار ہے، بڑا آدمی شمار ہوتا ہے، ایک بچے کی بات اِس کے مقابلے میں قابلِ قبول نہیں، ممکن ہے کہ سننے میں کچھ غلطی ہوئی ہو یاسمجھنے میں، حضورﷺ نے اُس کاعُذر قَبول فرمالیا، حضرت زیدص کو جب اِس کی خبر ہوئی کہ اُس نے جھوٹی قَسموں سے اپنے کو سچا ثابت کردیا، اور زید ص کو جھُٹلا دیا توشرم کی وجہ سے باہر نکلنا چھوڑ دیا، حضورﷺ کی مجلس میں بھی ندامت کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے، بِالآخر سورۂ مُنافِقون نازل ہوئی، جس سے حضرت زیدص کی سچائی اور عبداللہ بن اُبی کی جھوٹی قَسموں کا حال ظاہر ہوا، حضرت زیدص کی وَقعت موافق مُخالِف سب کی نظروں میں بڑھ گئی، اور عبداللہ بن اُبَی کاقِصَّہ بھی سب پرظاہر ہوگیا۔ جب مدینۂ مُنوَّرہ قریب آیا تو عبداللہ بن اُبی کے بیٹے -جن کانام بھی عبداللہ تھا، اور بڑے پکے مسلمانوں میں تھے- مدینۂ مُنوَّرہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے، اور باپ سے کہنے لگے کہ: اُس وقت تک مدینۂ مُنوَّرہ میں داخل نہیں ہونے دُوںگا جب تک اِس کا اقرار نہ کرے کہ: تُوذلیل ہے اور محمد ﷺ عزیز ہیں، اُس کوبڑاتعجب ہوا کہ یہ صاحبزادہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ بہت اِحتِرام اور نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے؛ مگر حضورﷺ کے مقابلے میں تحمُّل نہ کرسکے، آخر اُس نے مجبور ہوکر اِس کا اقرار کیاکہ: واللہ! مَیں ذلیل ہوں اورمحمد عزیز ہیں، اِس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔ (تاریخ خَمیس، ۱؍ ۴۷۱، ۴۷۲) (۱۲)حضرت جابرص کی ’’حَمراء ُالاَسَد‘‘ میں شرکت مَرحَمَت: عنایت۔ ہم رِکاب: ساتھ۔ اُحُد کی لڑائی سے فَراغت پر مسلمان مدینۂ طیبہ پہنچے، سفر اورلڑائی کی تکان خوب تھی؛ مگر مدینۂ مُنوَّرہ پہنچتے ہی یہ اطلاع ملی کہ، ابوسفیان نے لڑائی سے واپسی پر ’’حَمراء ُالاسَد‘‘ (ایک جگہ کا نام ہے) پہنچ کر ساتھیوں سے مشورہ کیا، اور یہ رائے قائم کی کہ: اُحُد کی لڑائی میں مسلمانوں کو شِکست ہوئی ہے، ایسے موقع کوغنیمت سمجھناچاہیے تھا، کہ نہ معلوم پھر ایسا وقت آسکے یانہ آسکے؛ اِس لیے حضورﷺ کو -نَعُوْذُبِاللّٰہِ -قتل کرکے لوٹنا چاہیے تھا، اِس