فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تک صحابۂ کرام ث کی بڑی جماعت موجود ہے، آؤ! اِن سے پوچھ پوچھ کرمسائل یادکریں، اُن انصاری نے کہا: کیا اِن صحابۂ کرام کی جماعت کے ہوتے ہوئے بھی لوگ تم سے مسئلہ پوچھنے آئیں گے؟ صحابہ ث کی بہت بڑی جماعت موجود ہے، غرض اُن صاحب نے توہِمَّت کی نہیں، مَیں مسائل کے پیچھے پڑگیا، اور جن صاحب کے متعلِّق بھی مجھے علم ہوتا کہ فلاں حدیث اُنھوں نے حضورﷺسے سنی ہے، اُن کے پاس جاتا اور تحقیق کرتا، مجھے مسائل کابہت بڑا ذخیرہ انصار سے ملا، بعض لوگوں کے پاس جاتا اور معلوم ہوتا کہ وہ سو رہے ہیں، تو اپنی چادر وہیں چوکھٹ پر رکھ کر انتظار میں بیٹھ جاتا، گو ہَوا سے منھ پر اور بدن پر مٹی بھی پڑتی رہتی؛ مگر مَیں وہیں بیٹھا رہتا، جب وہ اُٹھتے توجس بات کومعلوم کرناتھا وہ دریافت کرتا، وہ حضرات کہتے بھی کہ: تم نے حضورﷺکے چچا زاد بھائی ہوکر کیوں تکلیف کی؟ مجھے بُلالیتے؛ مگر مَیں کہتا کہ: مَیں علم حاصل کرنے والاہوں؛ اِس لیے مَیں ہی حاضرہونے کازیادہ مُستحِق تھا۔بعض حضرات پوچھتے کہ: تم کب سے بیٹھے ہو؟ مَیں کہتا: بہت دیر سے، وہ کہتے کہ: تم نے بُراکیا، مجھے اِطِّلاع کردیتے، مَیں کہتا: میرا دل نہ چاہا کہ تم میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آؤ، حتی کہ ایک وقت میں یہ نوبت بھی آئی کہ لوگ علم حاصل کرنے کے واسطے میرے پاس جمع ہونے لگے، تب اُن انصاری صاحب کوبھی قَلق ہوا، کہنے لگے کہ: یہ لڑکا ہم سے زیادہ ہوشیارتھا۔ (دَارمی) فائدہ:یہی چیز تھی جس نے حضرت عبداللہ بن عباس صکو اپنے وقت میں ’’حِبْرُالأُمَّۃِ‘‘ اور ’’بَحْرُالْعِلْم‘‘ کالقب دلوایا، جب اِن کا وِصال ہوا تو طائف میں تھے، حضرت علیص کے صاحبزادے محمد ؒنے جنازے کی نماز پڑھائی، اورفرمایا کہ: ’’اِس اُمَّت کاامامِ رَبَّانی آج رُخصت ہوا‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرص کہتے ہیں کہ: ’’ابن عباس ص آیتوں کے شانِ نزول جاننے میں سب سے مُمتاز ہیں‘‘۔ حضرت عمرص اُن کو عُلماکی مُمتاز صف میں جگہ دیتے تھے۔ یہ سب اِسی جاںفَشانی کا ثَمرہ تھا؛ ورنہ اگر یہ صاحبزادگی کے زَعممیں رہتے تو یہ مَراتِب کیسے حاصل ہوتے!۔ (۱۱)علم کی عظمت اور اُس کے آداب خود آقائے نامدار نبیٔ کریم ﷺکاارشاد ہے کہ: ’’جن سے علم حاصل کرو اُن کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ‘‘۔ ’’بخاری‘‘ میں مجاہدؒ سے نقل کیا ہے کہ: جوشخص پڑھنے میں حَیا کرے یاتکبُّرکرے، وہ علم حاصل نہیں کرسکتا۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ کاارشاد ہے کہ: جس شخص نے مجھ کوایک حرف بھی پڑھا دیا مَیں اُس کاغلام ہوں: خواہ وہ مجھے آزاد کردے یابیچ دے۔ یحییٰ بن کثیرؒ کہتے ہیں