فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اُس کودیکھ رہا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوراپنے آپ کو مُردوں کی فہرست میں شمار کیاکر (زندوں میں اپنے کوسمجھ ہی نہیں کہ پھر نہ کسی بات کی خوشی اور نہ کسی بات سے رنج)، اور مظلوم کی بددعا سے اپنے کو بچا، اور جو تُواِتنی بھی طاقت رکھتا ہو کہ زمین پر گھسٹ کر عشاء اور صبح کی جماعت میں شریک ہوسکے تودَریغ نہ کر۔(أخرجہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق، ج۷۲، ص ۹۱) ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: منافِقوں پر عشاء اور صبح کی نماز بہت بھاری ہے، اگر اُن کویہ معلوم ہوجاتا کہ جماعت میں کتنا ثواب ہے توزمین پر گھسٹ کر جاتے اورجماعت سے اُن کوپڑھتے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل جماعۃ العشاء فی جماعۃ، حدیث، ۶۵۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) (۴)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَوْماً فِيْ جَمَاعَۃٍ یُدْرِكُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلیٰ کُتِبَ لَہٗ بَرَاءَ تَانِ: بَرَاءَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ، وَبَرَاءَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ. (رواہ الترمذي وقال: لاأعلم أحدا رفعہ إلا مارویٰ مسلم بن قتیبۃ عن طعمۃ ابن عمر، وقال: المملي ومسلم وبقیۃ رواتہ ثقاۃ، کذا في الترغیب؛ قلت: ولہ شواهد من حدیث عمر رفعہ: ’’مَنْ صَلّٰی فِي مَسجِدِ جَمَاعَۃٍ أَربَعِیْنَ لَیلَۃً لَاتَفُوتُہُ الرَّکْعَۃُ الأُوْلیٰ مِن صَلَاۃِ العِشَاءِ کَتَبَ اللہُ لَہٗ بِهَا عِتقاً مِّنَ النَّارِ‘‘ رواہ ابن ماجۃ -واللفظ لہ- والترمذي، وقال: نحو حدیث أنس یعني المتقدم، ولم یذکر لفظہ، وقال: مرسل یعني أن عمارۃ الراوي من أنس لم یدرك أنسا، وعزاہ في منتخب الکنز إلی البیهقي في الشعب، وابن عساکر وابن النجار) ترجَمہ:نبیٔ اکرم ﷺ کاارشاد ہے کہ: جوشخص چالیس دن اخلاص کے ساتھ ایسی نماز پڑھے کہ تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو، تواُس کو دو پَروانے ملتے ہیں: ایک پَروانہ جہنَّم سے چھُٹکارے کا، دوسرا نِفاق سے بَری ہونے کا۔ تغیُّر: بدلنے۔ فائدہ:یعنی جو اِس طرح چالیس دن اِخلاص سے نمازپڑھے کہ شروع ہی سے امام کے ساتھ شریک ہو، اورنماز شروع کرنے کی تکبیر جب امام کہے تو اُسی وقت یہ بھی نماز میں شریک ہوجائے، تو وہ شخص نہ جہنَّم میں داخل ہوگا نہ مُنافِقوں میں داخل ہوگا۔ مُنافِق وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اپنے کو مسلمان ظاہرکریں؛ لیکن دل میں کُفر رکھتے ہوں۔ اور چالیس دن کی خُصوصِیَّت بہ ظاہر اِس وجہ سے ہے کہ، حالات کے تغیُّر میں چالیس دن کوخاص دَخل ہے، چناںچہ آدمی کی پیدائش کی ترتیب جس حدیث میں آئی ہے اُس میں بھی چالیس دن تک نُطفہ رہنا، پھر گوشت کاٹکڑا چالیس دن، اِسی طرح چالیس چالیس دن میں اُس کاتغیُّر ذکر فرمایا ہے، اِسی وجہ سے صُوفیا کے یہاں چِلَّہ بھی خاص اَہمِّیَّت رکھتا ہے۔ کتنے خوش قِسمت ہیں وہ لوگ جن کی برسوں بھی تکبیرِ اُولیٰ فوت نہیں ہوتی!!۔ (۵)عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَہٗ، ثُمَّ رَاحَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلُّوْا، أَعْطَاہُ اللہُ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا، لَایَنْقُضُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ. (رواہ أبوداود والنسائي والحاکم، وقال: صحیح علیٰ شرط مسلم، کذا في الترغیب، وفیہ أیضا عن سعید ابن المسیب قال: حَضَرَ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ المَوتُ فَقَالَ: إِنِّي مُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثاً -مَاأُحَدِّثُکُمُوْہُ إِلَّااِحْتِسَاباً-، إِنِّيْ سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُکُمْ فَأَحْسَنَ الوُضُوْءَ، الحدیث. وفیہ: فَإِنْ أَتَی الْمَسجِدَ فَصَلّٰی فِي جَمَاعَۃٍ غُفِرَلَہٗ، فَإِنْ أَتَی الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلُّوْا بَعْضاً وَبَقِيَ بَعضٌ، صَلّٰی مَاأَدرَكَ وَأَتَمَّ مَا بَقِيَ کَانَ کَذَالِكَ، فَإِنْ أَتَی المَسجِدَ وَقَدْ صَلُّوْا فَأَتَمَّ الصَّلَاۃَ کَانَ کَذَالِكَ. رواہ أبوداود)