فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بھی قدرت نہیں رکھتا، اے اللہ! اگر وہ میری بُرائی چاہے تو تُو اُس کو دَفع کر، اور وہ میرے ساتھ مَکر کرے تو تُواُس کے مَکر کا اِنتقام لے، مَیں اُس کے شَر سے تیری پناہ مانگتی ہوں، اور تیری مدد سے اُس کودَھکیلتی ہوں‘‘۔اِس کے بعد وہ روتی رہتی تھی، حتیٰ کہ روتے روتے اُس کی ایک آنکھ جاتی رہی، لوگوں نے اُس سے کہا: خداسے ڈر، کہیں دوسری آنکھ بھی نہ جاتی رہے، اُس نے کہا: اگر یہ آنکھ جنت کی آنکھ ہے تو اللہ جَلَّ شَانُہٗ اِس سے بہتر عطا فرمائیںگے، اوراگر دوزخ کی آنکھ ہے تواِس کادُور ہی ہونااچھا۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۲۲۵، ص ۲۷۲) فَرمائش: درخواست۔ نَوعُمر: نوجوان۔ مُنادِی: بلانے والا۔ بہ طریقِ اَولیٰ: اَور زیادہ۔ تَخلِیَہ: تنہائی۔ اَپاہج: لنگڑی۔ شیخ ابوعبداللہ جَلا ٔ فرماتے ہیں کہ: ایک دن میری والدہ نے میرے والد سے مچھلی کی فَرمائش کی، والد صاحب بازار تشریف لے گئے، مَیں بھی ساتھ تھا، مچھلی خریدی، گھر تک لانے کے واسطے مزدور کی تلاش تھی، کہ ایک نَوعُمر لڑکا -جوپاس ہی کھڑاتھا- کہنے لگا: چچا جان! اِسے اُٹھانے کے واسطے مزدور چاہیے؟ کہا: ہاں! اُس لڑکے نے اپنے سر پر اُٹھالی اور ہمارے ساتھ چل دیا، راستے میں اُس نے اذان کی آواز سن لی، کہنے لگا: اللہ کے مُنادِی نے بُلایا ہے، مجھے وُضوبھی کرنا ہے، نماز کے بعدلے جاسکوں گا، آپ کادل چاہے انتظار کرلیجیے؛ ورنہ اپنی مچھلی لے لیجیے، یہ کہہ کر مچھلی رکھ کر چلاگیا، میرے والد صاحب کوخیال آیا کہ یہ مزدور لڑکا توایسا کرے، ہمیں بہ طریقِ اَولیٰ اللہ پر بھروسہ کرناچاہیے، یہ سوچ کر وہ بھی مچھلی رکھ کرمسجد میں چلے گئے، نماز سے فارغ ہوکر ہم سب آئے تومچھلی اِسی طرح رکھی ہوئی تھی، اُس لڑکے نے اُٹھاکر ہمارے گھر پہنچا دی، گھر جاکر والد نے یہ عجیب قِصَّہ والدہ کوسنایا، اُنھوں نے فرمایا کہ: اِس کوروک لو وہ بھی مچھلی کھاکر جائے، اُس سے کہاگیا، اُس نے جواب دیاکہ: میراتوروزہ ہے، والد نے اِصرار کیا کہ شام کے وقت یہیں آکر افطار کرے، لڑکے نے کہا: مَیں ایک دفعہ جاکر دوبارہ نہیں آتا، یہ ممکن ہے کہ مَیں پاس ہی مسجد میں ہوں، شام کو آپ کی دعوت کھاکر چَلا جاؤںگا، یہ کہہ کر وہ قریب ہی مسجد میں چلا گیا، شام کو بعد مغرب آیا، کھاناکھایا، اور کھانے سے فَراغَت پر اُس کو تَخلِیَہ کی جگہ بتا دی۔ ہمارے قریب ہی ایک اَپاہج عورت رَہا کرتی تھی، ہم نے دیکھا کہ وہ بالکل اچھی تندرست آرہی ہے، ہم نے اُس سے پوچھا کہ: تُوکس طرح اچھی ہوگئی؟ کہا: مَیں نے اِس مہمان کے طُفیل سے دعا کی تھی کہ: یااللہ! اِس کی برکت سے مجھے اچھاکردے، مَیں فوراً اچھی ہوگئی۔ اِس کے بعد جب ہم اُس کے تَخلِیہ کی جگہ اُس کودیکھنے گئے تو دیکھا: دروازے بند ہیں اور اُس مزدور کا کہیں پتہ نہیں۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۲۲۹، ص ۲۷۳) ایک بزرگ کاقِصَّہ لکھا ہے کہ: اُن کے پاؤں میں پھوڑا نکل آیا، طَبِیبوں نے کہا: اگر اِن کا پاؤں نہ کاٹا گیا تو ہَلاکت کااندیشہ ہے، اُن کی والِدہ نے کہا: ابھی