فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
وتقدم لہ شواهد في الوُضوء،کذا في الترغیب. قلت: وقد روي معنی الحدیث عن أبي أمامۃ بطرق في مجمع الزوائد) ترجَمہ:ابومسلمؒ کہتے ہیں کہ: مَیں حضرت ابواُمامہ صکی خدمت میںحاضر ہوا،وہ مسجد میں تشریف فرماتھے، مَیں نے عرض کیاکہ: مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ: آپ نے نبیٔ اکرم ﷺسے یہ ارشادسناہے: ’’جوشخص اچھی طرح وُضوکرے، اور پھر فرض نماز پڑھے، توحق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ اُس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں، اوروہ گناہ جن کو اُس کے ہاتھوں نے کیا ہو، اور وہ گناہ جو اُس کے کانوں سے صادِر ہوئے ہوں، اور وہ گناہ جن کواُس نے آنکھوں سے کیاہو، اور وہ گناہ جو اُس کے دل میں پیداہوئے ہوں؛ سب کومُعاف فرمادیتے ہیں‘‘، حضرت ابواُمامہ صنے فرمایا کہ: مَیں نے یہ مضمون نبیٔ اکرم ﷺسے کئی دفعہ سنا ہے۔ زائل:ختم۔ فائدہ: یہ مضمون بھی کئی صحابہ ث سے نقل کیاگیا ہے؛ چناں چہ حضرت عثمان، حضرت ابوہریرہ، حضرت انس، حضرت عبداللہ صُنابِحی، حضرت عَمرو بن عَبَسہ ث؛وغیرہ حضرات سے مختلف الفاظ کے ساتھ متعدِّد روایات میں ذکرکیاگیا ہے، اور جو حضرات اہلِ کَشف ہوتے ہیں اُن کو گناہوں کا زائل ہوجانا محسوس بھی ہوجاتاہے؛ چناںچہ حضرت امام اعظمؒ کا قصہ مشہور ہے کہ: وہ وُضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرمالیتے تھے کہ کونساگناہ اِس میں دُھل رہا ہے۔ حضرت عثمان ص کی ایک روایت میں نبیٔ اکرم ﷺ کایہ ارشادبھی نقل کیاگیا ہے کہ: ’’کسی شخص کو اِس بات سے مغرور نہیں ہونا چاہیے‘‘ اِس کامطلب یہ ہے کہ: اِس گھمنڈپر کہ نمازسے گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں، گناہوں پر جُرأت نہیں کرناچاہیے؛ اِس لیے کہ ہم لوگوں کی نماز اورعبادت جیسی ہوتی ہے اُن کو اگرحق تعالیٰ جَلَّ شَانُہٗ اپنے لُطف اور کرم سے قبول فرمالیں، تواُن کالُطف واحسان وانعام ہے؛ ورنہ ہماری عبادتوں کی حقیقت ہمیںخوب معلوم ہے، اگرچہ نمازکایہ اثر ضروری ہے کہ اُس سے گناہ مُعاف ہوتے ہیں؛ مگر ہماری نماز بھی اِس قابل ہے؟ اِس کاعلم اللہ ہی کو ہے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ: اِس وجہ سے گناہ کرنا کہ میرامالک کریم ہے، مُعاف کرنے والا ہے، اِنتِہائی بے غیرتی ہے، اِس کی مثال توایسی ہوئی کہ، کوئی شخص یوں کہے کہ: اپنے اُن بیٹوں سے جو فلاں کام کریں دَرگُزر کرتاہوں، تو وہ نالائق بیٹے اِس وجہ سے کہ باپ نے دَرگُزر کرنے کوکہہ دیا ہے جان جان کر اُس کی نافرمانیاں کریں۔ (۸)عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِيٍّ حَيٌّ مِنْ قَضَاعَۃَ أَسْلَمَا مَعَ رَسُوْلِ اللہِﷺ، فَاسْتُشْهِدَ أَحَدُهُمَا وَأُخِّرَ الْاٰخِرَۃُ سَنَۃً، قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِاللہِ: فَرَأَیْتُ الْمُؤَخَّرَ مِنْهُمَا أُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّهِیْدِ، فَتَعَجَّبْتُ لِذٰلِكَ، فَأَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّﷺ، أَوْ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللہِﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ: أَلَیْسَ قَدْصَامَ بَعْدَہٗ رَمَضَانَ؟ وَصَلّیٰ سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ؟ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً صَلَاۃِ سَنَۃٍ؟.