فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
درکِنار:ایک طرف۔ دَرگُزرکرنا:چھوڑنا۔ کھُلے مُہار:پوری آزادی سے۔ کی بڑی جماعت ہے، اگروہ قبیلہ مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کواِن تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑجائے، وہاں پہنچ کر قبیلے کے تین سرداروں سے -جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے- گفتگوفرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بُلایا، اوراللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجَّہ کیا؛ مگراُن لوگوں نے بجائے اِس کے کہ دین کی بات کو قُبول کرتے،یاکم سے کم عرب کی مشہورمہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نَووارِد مہمان کی خاطرمُدارات کرتے، صاف جواب دے دیا، اورنہایت بے رُخی اور بداخلاقی سے پیش آئے۔ اُن لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قِیام فرمالیں، جن لوگوں کو سردارسمجھ کر بات کی تھی کہ وہ شریف ہوںگے اورمُہَذَّب گفتگوکریںگے ،اُن میں سے ایک شخصؔ بولا کہ: اوہو! آپ ہی کواللہ نے نبی بناکربھیجا ہے؟۔ دوسرا ؔبولاکہ:اللہ کوتمھارے سِواکوئی اَور ملتا ہی نہیں تھا جس کورسول بناکر بھیجتے؟۔ تیسرےؔ نے کہا: مَیں تجھ سے بات کرنانہیں چاہتا؛ اِس لیے کہ اگر تُو واقعی نبی ہے جیساکہ دعویٰ ہے تو تیری بات سے اِنکار کردینا مصیبت سے خالی نہیں، اور اگر جھوٹ ہے تو مَیں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ اِس کے بعد اُن لوگوں سے ناامید ہوکر حضورِاکرم ﷺ نے اَور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا، کہ آپ توہمت واِستقلال کے پہاڑ تھے؛ مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا؛ بلکہ بجائے قُبول کرنے کے حضورﷺ سے کہا کہ: ہمارے شہر سے فوراً نکل جاؤ اورجہاں تمھاری چاہت کی جگہ ہو وہاں چلے جاؤ۔ حضورِاکرم ﷺ جب اُن سے بالکل مایوس ہوکر واپس ہونے لگے تواُن لوگوں نے شہرکے لڑکوں کوپیچھے لگادیا، کہ آپ کا مذاق اُڑائیں، تالیاں پیٹیں، پتھر ماریں، حتی کہ آپ ﷺکے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہوگئے،حضورِاقدس ﷺاِسی حالت میں واپس ہوئے۔ جب راستے میں اُن شریروں سے اطمینان ہوا تو حضورﷺ نے یہ دعامانگی: نووارِد: مسافر، اجنبی۔ خاطرمُدارات: آؤ بھگت۔ مُہَذَّب: مناسب، اچھی۔ اِستقلال: مضبوطی۔ ’’اَللّٰہُمَّ إِلَیْكَ أَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِيْ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِيْ، وَہَوَانِيْ عَلَی النَّاسِ، یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأَنْتَ رَبِّيْ، إِلیٰ مَنْ تَکِلُنِيْ؟ إِلیٰ بَعِیْدٍ یَتَجَہَّمُنِيْ، أَمْ إِلیٰ عَدُوٍّ مَلَّکْتَہُ أَمْرِيْ؟ إِنْ لَّمْ یَکُنْ بِكَ عَلَيَّ غَضَبٌ فَلَاأُبَالِيْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُكَ ہِيَ أَوْسَعُ لِيْ. أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِكَ الَّذِيْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ،مِنْ أَنْ یَّنْزِلَ بِيْ غَضَبُكَ، أَوْیَحِلَّ عَلَيَّ سَخَطُكَ؛ لَكَ الْعُتْبیٰ حَتیٰ تَرْضیٰ، وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِكَ. (کذا في سیرۃ ابن هشام، قلت: واختلفت