فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مشق کہ کوئی سانس اللہ کے ذکر بغیر نہ اندر جائے نہ باہر آئے، اُمتِ محمدیہ ﷺکے کڑوڑوں افراد ایسے ہیں جن کو اِس کی مشق حاصل ہے، تو پھر کیا تردُّد ہے حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے اِس ارشاد میں کہ: اُن کی زبانیں اِس کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے ساتھ مانوس اور مُنقاد ہوگئیں!۔ (۱۸) عَن ابنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَکتُوبٌ عَلیٰ بَابِ الجَنَّۃِ: إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا، لَا أُعَذِّبُ مَن قَالَهَا. (أخرجہ أبو الشیخ، کذا في الدر) ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے: إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا، لَا أُعَذِّبُ مَن قَالَهَا: مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں، جو شخص اِس کلمے کو کہتا رہے گا مَیں اُس کو عذاب نہیں کروںگا۔ فائدہ: گناہوں پر عذاب کا ہونا دوسری احادیث میں بہ کثرت آیا ہے؛ اِس لیے اِس سے اگر دائمی عذاب مراد ہوتو کوئی اشکال نہیں؛ لیکن کوئی خوش قسمت ایسے اِخلاص سے اِس جملے کا وِرد رکھنے والا ہو کہ باوجود گناہوں کے اُس کو بالکل عذاب نہ کیا جائے، یہ بھی رحمتِ خداوندی سے بعید نہیں ہے، جیسا حدیث نمبر ۱۴؍ میں گزرا۔ اِس کے عِلاوہ نمبر ۹؍ میں بھی کچھ تفصیل گزرچکی ہے۔ (۱۹)عَن عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِﷺ عَن جِبرَئِیلَں قَالَ: قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ: إِنِّي أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعبُدنِي، مَن جَاءَ نِي مِنکُم بِشَهَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ بِالإخلَاصِ دَخَلَ فِي حِصنِي، وَمَن دَخَلَ حِصنِي أَمِنَ عَذَابِيْ. (أخرجہ أبونعیم في الحلیۃ، کذا في الدر، وابن عساکر، کذا في الجامع الصغیر، وفیہ أیضا بروایۃ الشیرازي عن علي، ورقم لہ بالصحۃ. وفي الباب عن عتبان ابن مالك بلفظ: ’’أَنَّ اللہَ قَد حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَن قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَبتَغِي بِذٰلِكَ وَجہُ اللہِ‘‘، رواہ الشیخان، وعن ابن عمر بلفظ: أَنَّ اللہَ لَایُعَذِّبُ مِن عِبَادِہٖ إِلَّا المَارِدَ المُتَمَرِّدَ، الَّذِي یَتَمَرَّدُ عَلَی اللہِ وَأَبیٰ أَن یَّقُولَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. رواہ ابن ماجہ) ترجَمہ:حضور ِاقدس ﷺ حضرت جبرئیل ں سے نقل کرتے ہیں کہ: اللہدکا ارشاد ہے کہ: مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں؛ لہٰذا میری ہی عبادت کیا کرو، جو شخص تم میں سے اخلاص کے ساتھ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی دیتا ہوا آوے گا وہ میرے قلعے میں داخل ہوجائے گا، اور جو میرے قلعے میںداخل ہوگا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگا۔ مامون: محفوظ۔ دائمی:ہمیشہ۔ ہیکڑی: سرکَشی۔ فائدہ:اگر یہ بھی کبائر سے بچنے کے ساتھ مَشرُوط ہے -جیسا کہ حدیث نمبر ۵؍ میں گزر چکا- تب تو کوئی اشکال ہی نہیں، اور اگر کَبائر کے باوجود یہ کلمہ کہے تو پھر قواعد کے موافق تو عذاب سے مراد دائمی عذاب ہے، ہاں! اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رحمت قواعد کی پابند نہیں، قرآن پاک کا صاف ارشاد ہے کہ: اللہجَلَّ شَانُہٗ شِرک کو مُعاف نہیں فرمائیںگے، اِس کے عِلاوہ جس کو چاہیںگے مُعاف کر دیں گے۔ چناںچہ ایک حدیث میں ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُسی شخص کو عذاب کرتے ہیں جو اللہ پر تَمرُّد (ہیکڑی)کرے، اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے سے اِنکار کرے۔ (ابن ماجہ،ابواب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ،ص:۳۱۸،حدیث:۴۲۹۷)