فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تباہی -جس کو ہم عملاً آخرت سے مُقدَّم سمجھتے ہیں- اِنھِیں اُمور کی وجہ سے ہے، غور تو کیجیے، اِس اندھے پن کی کوئی حد بھی ہے؟ ﴿مَنْ کَانَ فِيْ هٰذِہٖ أَعْمیٰ فَهُوَ فِيْ الاٰخِرَۃِ أَعْمیٰ﴾، حقیقی بات یہ ہے کہ: ﴿خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِهِمْ وَعَلیٰ سَمْعِهِمْ وَعَلیٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَۃٌ﴾ کا پَرتَو ہے۔ (۵)رُوِيَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ قَالَ: لَاتَزَالُ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ تَنْفَعُ مَنْ قَالَهَا، وَتَرُدُّ عَنْهُمُ الْعَذَابَ وَالنِّقْمَۃَ مَالَمْ یَسْتَخِفُّوْا بِحَقِّهَا، قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللہِ؟ مَا الاِسْتِخْفَافُ بِحَقِّهَا؟ قَالَ: یُظْهَرُ الْعَمَلُ بِمَعَاصِيْ اللہِ فَلَایُنْکَرُ وَلَایُغَیَّرُ. ترجَمہ: حضورﷺ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ: (کلمۂ توحید)لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ)کہنے والے کو ہمیشہ نفع دیتا ہے، اور اُس سے عذاب وبَلا کو دَفع کرتا ہے جب تک کہ اُس کے حقوق سے بے پرواہی اور اِستِخفَاف نہ کیا جائے، صحابہ ثنے عرض کیا کہ: اُس کے حقوق سے بے پرواہی واستِخفَاف کیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کی نافرمانیاں کھُلی طور پر کی جائیں اور اُن کو بند کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔ فائدہ:اب آپ ہی ذرا انصاف سے فرمائیے کہ اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی کوئی انتہا، کوئی حد ہے؟ اور اُس کے روکنے یا بند کرنے کی، یاکم از کم تَقلِیل کی کوئی سَعی، کوئی کوشش ہے؟ ہرگز نہیں، ایسے خطرناک ماحول میں مسلمانوں کا عالَم میں موجود ہونا ہی اللہ تعالیٰ کا حقیقی انعام ہے؛ ورنہ ہم نے اپنی بربادی کے لیے کیا کچھ اسباب پیدا نہیں کرلیے ہیں؟ حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا نے نبیٔ کریم ﷺ سے پوچھا کہ: کیا کوئی اللہ کا عذاب اگر زمین والوں پر نازل ہو اور وہاں کچھ دِین دار لوگ بھی ہوں تو اُن کو بھی نقصان پہنچتاہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ: دنیا میں تو سب کو اثر پہنچتا ہے؛ مگر آخرت میں وہ لوگ گنہ گاروں سے علاحدہ ہوجائیںگے۔ اِس لیے وہ حضرات جو اپنی دِین داری پر مُطمَئِن ہوکر دنیا سے یکسُو ہوبیٹھے، اِس سے بے فکر نہ رہیں کہ خدانہ خواستہ اگر مُنکَرات کے اِس شُیُوع پر کوئی بَلا نازل ہوگئی تو اُن کو بھی اُس کا خَمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ (۶) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّﷺ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِہٖ أَنْ قَدْ حَضَرَہٗ شَيْئٌ، فَتَوَضَّأَ وَمَا کَلَّمَ أَحَداً، فَلَصِقْتُ بِالْحُجْرَۃِ أَسْتَمِعُ مَایَقُوْلُ، فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنیٰ عَلَیْہِ، وَقَالَ: یٰأَیُّهَا النَّاسُ! إِنَّ اللہَ تَعَالیٰ یَقُوْلُ لَکُمْ: ’’مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوْا فَلَاأُجِیْبَ لَکُمْ، وَتَسْأَلُوْنِيْ فَلَا أُعْطِیَکُمْ، وَتَسْتَنْصُرُوْنِيْ فَلَاأَنْصُرَکُمْ‘‘؛ فَمَا زَادَ عَلَیْهِنَّ حَتّٰی نَزَلَ. (رواہ ابن ماجہ، وابن حبان في صحیحہ؛ کذا في الترغیب) ترجَمہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فرماتی ہیں کہ: نبیٔ اکرم ﷺ ایک مرتبہ دَولت کَدے پر تشریف لائے، تو مَیں نے چہرۂ انور پرایک خاص اثردیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے، حضور ﷺنے کسی سے کچھ بات چیت نہیںفرمائی، اور وُضو فرماکر مسجد میں تشریف لے گئے، مَیں حُجرے