فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فصل سادِس عامَّۂ مُسلِمِین: عام مسلمان۔ تَحقِیر: ذلیل سمجھنا۔ بِالعُمُوم: عام طور پر۔ سُوء: بُرا۔ رُشد: نیک۔ مَخلُوط: مِلا ہوا۔ مُحقَّق: ثابت۔ عمل درآمد: کار روائی۔ رَد: ٹھُکرانا۔تَصدِیق: سچ ماننا۔ تکذِیب: جھُٹلانا۔وَقعَت: اہمِّیَّت۔ بَشَرِیَت:انسان ہونا۔ مَعصُوم: بے گناہ۔ عائد: لوٹ کرآنے والا۔ اَغلب: غالب گمان۔ ہَمہ تَن: پوری توجُّہ سے۔ تَسامُح: مُعاف۔بہ مُقتَضائے عَدل گِرفْت: انصاف کے تقاضے کے مطابق پکڑ۔ وبالِ عظیم: بڑا وَبال۔اصحابِ ذیل: نیچے لکھے گئے حضرات۔ اِفراط تفریط: کمی زیادتی۔ مُنصِف: انصاف کرنے والا۔ حاکم: بادشاہ۔ خَفِیف: ہلکا۔ پُختہ کار: ماہر۔چُون وچِرا: اگر مگر، بحث وتکرار۔ حق تَلفی: حق ضائع۔ الفاظِ کُفرِیہ:کُفر کے الفاظ۔ سُبک دَوشی: چھُٹکارا۔عائِد: ذمہ میں۔ خَیرُ القُرون: صحابہث کا زمانہ۔ نَعلَین شریف: جُوتے مبارک۔ کلمہ گو: کلمہ پڑھنے والا۔ اِحتجاجی رِیزُولِیُوشَن: انکار کرنے کے لیے فیصلہ۔ پاس: مُتعیَّن۔ مُختلَف فیہا: اختلاف والے۔ اَئِمَّۂ اربعہؒ: چار امام:امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حَنبلؒ۔ جُزئی: مسئلہ۔ کوتاہ نظر: تنگ نظر۔ رَفعِ یَدین: ہاتھوں کو اُٹھانا۔ آمین بِالجہَر: زور سے آمین کہنا۔ آشنا: واقِف۔ بَدِیہی: واضح۔ مُداہِن: دین میں مِلاوَٹ کرنے والا۔ عاصِی: گنہ گار۔ لَچر: لغو۔ پوچ: بے معنیٰ۔ حِیلہ: بہانہ۔ اَطِبَّاء: ڈاکٹر۔ وُکَلاء: وکیل۔ مُتَّبِعِ سُنَّت: سنت کی اِتِّباع کرنے والا۔ طَعن وتَشنِیع: بُرا بھلا کہنا۔ باز: بچا۔ رَسائی: پہنچ۔ صَریح: واضح۔ لَب کُشائی: منھ کھولنا۔ (اِس فصل)میں عامَّۂ مُسلِمِین کو ایک خاص اَمر کی طرف مُتوجَّہ کرنا ہے، وہ یہ کہ، اِس زمانے میں عُلَما کی طرف سے بدگمانی، بے توجُّہی نہیں؛ بلکہ مقابلہ اور تَحقِیر کی صورتیں بِالعُمُوم اختیار کی جارہی ہیں، یہ اَمر دِین کے لحاظ سے نہایت ہی سخت خطرناک ہے۔ اِس میں ذرا شک نہیں کہ دنیا کی ہرجماعت میں جس طرح اَچھوں میں بُرے بھی ہوتے ہیں عُلَما کی جماعت میں بھی اِسی طرح؛ بلکہ اِس سے بھی زیادہ جھوٹے، سچّوں میں شامل ہیں، اورعُلَمائے سُوء، عُلَمائے رُشد میں مَخلُوط ہیں؛ مگر پھر بھی دو اَمر بے حد لِحاظ کے قابل ہیں: اول یہ کہ، جب تک کسی شخص کا عُلَمائے سُوء میں سے ہونا مُحقَّق نہ ہوجائے اُس پر ہرگز کوئی حکم نہ لگادینا چاہیے، ﴿وَلَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا﴾ ترجَمہ:اور جس بات کی تجھ کو تحقیق نہ ہو اُس پر عمل درآمد نہ کیا کر، کان اور آنکھ اور دل؛ ہر شخص سے اِن سب کی پوچھ ہوگی۔(بیانُ القرآن) اور محض اِس بدگمانی پر کہ کہنے والا شاید عُلَمائے سُوء میں ہو اُس کی بات کو بلا تحقیق رَد کردینا اَور بھی زیادہ ظلم ہے، نبیٔ کریم ﷺ نے اِس میں اِس قدر احتیاط فرمائی ہے کہ یہود تَورَات کے مضامین کو عربی میں نقل کرکے سُناتے تھے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ نہ اِن کیتَصدِیق کیا کرو نہ تکذِیب ؛ بلکہ یہ کہہ دیا کرو کہ: اللہ تعالیٰ نے جوکچھ نازل فرمایا ہے سب پر ہمارا ایمان ہے۔ یعنی یہ کہ کافروں کی نقل کے مُتعلِّق بھی بِلاتحقیق تَصدِیق وتکذِیب سے روک دیا؛ لیکن ہم لوگوں کی یہ حالت ہے کہ، جب کوئی شخص کسی قِسم کی بات ہماری رائے کے خلاف کہتا ہے تو اُس کی بات کی وَقعَت گِرانے