فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
یااَجرسے)بھردے: ایک، لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ،دوسرا ،اَللہُ أَکبَرُ.(طبرانی،۲۰؍۱۶۰حدیث:۳۳۴) (۶) عَن یَعلَی بنِ شَدَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي: شَدَّادُ بنُ أَوسٍ -وَعُبَادَۃُ بنُ الصَّامِتِ حَاضِرٌ یُصَدِّقُ- قَالَ: کُنَّا عِندَ النَّبِيِّﷺ فَقَالَ: هَلْ فِیکُمْ غَرِیبٌ یَعنِي أَهلَ الکِتَابِ؟ قُلنَا: لَا یَارَسُولَ اللہِ! فَأَمَرَ بِغَلقِ الأَبوَابِ، وَقَالَ: اِرفَعُوا أَیدِیکُم، وَقُولُوا: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، فَرَفَعناَ أَیدِینَا سَاعَۃً، ثُمَّ قَالَ: اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ بَعَثْتَنِي بِهٰذِہِ الکَلِمَۃِ وَوَعَدْتَّنِي عَلَیهَا الجَنَّۃَ، وَأَنتَ لَاتُخلِفُ المِیعَادَ؛ ثُمَّ قَالَ: أَبشِرُوْا فَإِنَّ اللہَ قَد غَفَرَلَکُم. (رواہ أحمد بإسناد حسن، والطبراني وغیرهما؛ کذا في الترغیب. قلت: وأخرجہ الحاکم، وقال: إسماعیل بن عیاش أحد أئمۃ أهل الشام، وقد نسب إلیٰ سوء الحفظ، وأنا علیٰ شرطيفي أمثالہ؛ وقال الذهبي: راشد ضعفہ الدارقطني وغیرہ، ووثقہ رحیم. اھ وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد والطبراني والبزار، ورجال موثقون. اھ) ترجَمہ: حضرت شَدَّادص فرماتے ہیں -اور حضرت عُبادہصاِس واقعے کی تصدیق کرتے ہیں- کہ: ایک مرتبہ ہم لوگ حضورﷺکی خدمت میں حاضر تھے، حضورﷺنے دریافت فرمایا: کوئی اَجنبی (غیر مسلم) تو مجمع میں نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کوئی نہیں، ارشاد فرمایا: کِواڑ بند کردو، اِس کے بعداِرشاد فرمایا: ہاتھ اُٹھاؤ اور کہو: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، ہم نے تھوڑی دیر ہاتھ اُٹھائے رکھے (اور کلمۂ طیبہ پڑھا)، پھر فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اے اللہ! تُونے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا ہے، اور اِس کلمے پر جنت کاوعدہ کیا ہے اور تُو وعدہ خلاف نہیں ہے، اِس کے بعد حضور ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ: خوش ہوجاؤ، اللہ نے تمھاری مغفرت فرمادی۔ کِواڑ: دروازہ۔ تَلقِین: تعلیم۔ اِستِدلال:دلیل پکڑنا۔ مُستفِیدین: فائدہ حاصل کرنے والے۔ تام: مکمَّل۔ تشتُّت: پریشانی۔ فائدہ:غالباً اَجنبی کو اِسی لیے دریافت فرمایا تھا، اور اِسی لیے کِواڑ بند کرائے تھے کہ اِن لوگوں کے کلمۂ طیبہ پڑھنے پر تو حضورِاقدس ﷺ کو مغفرت کی بشارت کی امید ہوگی، اَوروں کے مُتعلِّق یہ اُمید نہ ہو۔ صوفیا نے اِس حدیث سے مَشائخ کا اپنے مُریدین کی جماعت کو ذِکر تَلقِین کرنے پر اِستِدلال کیا ہے؛ چناںچہ ’’جامعُ الاصول‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضورﷺکا صحابہ ث کو جماعۃً اور مُنفَرِداً ذکر تلقین کرنا ثابت ہے، جماعت کو تلقین کرنے میں اِس حدیث کوپیش کیا ہے۔ اِس صورت میں کِواڑوں کابند کرنا مُستفِیدین کی توجُّہ کے تام کرنے کی غرض سے ہو، اور اِسی وجہ سے اجنبی کو دریافت فرمایا، کہ غیر کامجمع میںہونا حضورﷺپر تشتُّت کا سبب اگرچہ نہ ہو؛ لیکن مُستفیدین کے تشتُّت کا اِحتِمال تو تھا ہی: چہ خوش اَست باتُو بَزمے بنَہُفتَہ ساز کَردَن ء دَرِخانہ بند کَردن سرِشِیشہ باز کردن (کیسی مزے کی چیز ہے تیرے ساتھ خُفیہ ساز کرلینا! گھر کا دروازہ بند کردینا اور بوتل کا منھ کھول دینا۔) (۷) عَنْ أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: جَدِّدُوْا إِیمَانَکُم، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ! وَکَیفَ نُجَدِّدُ إِیمَانَنَا؟