فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
حدیث کے الفاظ ہیں: ’’رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیاً‘‘ (ایک وہ آدمی جو اللہ کا ذکر کرے اِس حال میں کہ وہ خالی ہو)صوفیا نے لکھا ہے کہ: خالی ہونے کے دومطلب ہیں: ایک یہ کہ آدمیوں سے خالی ہو جس کے معنیٰ تنہائی کے ہیں، یہ عام مطلب ہے۔ دوسرے یہ کہ: دل اَغیار سے خالی ہو، وہ فرماتے ہیں کہ: اصل خَلوت یہی ہے۔ اِس لیے اَکمل درجہ تو یہ ہے کہ: دونوں خلوتیں حاصل ہوں؛ لیکن اگر کوئی شخص مجمع میں ہو اور دل غیروں سے بالکل خالی ہو، اور ایسے وقت اللہ کے ذکر سے کوئی شخص رونے لگے تو وہ بھی اِس میں داخل ہے، کہ مجمع کا ہونا نہ ہونا اُس کے حق میں برابر ہے، جب اُس کا دل مجمع تو دَرکِنار ، غیرُ اللہ کے اِلتِفات سے بھی خالی ہے تو اُس کو مجمع کیا مُضِر ہوسکتا ہے؟۔ اللہ کی یاد میں اُس کے خوف سے رونا بڑی ہی دولت ہے، خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ مُیسّر فرماویں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص اللہ کے خوف سے روئے وہ اُس وقت تک جہنَّم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھنوں میں واپس جائے، (اور ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے، پس ایسے ہی اُس کا جہنَّم میں جانا بھی ناممکن ہے)۔(ترمذی، ابواب فضائل الجہاد،باب ماجاء في فضل الغبار في سبیل اللہ،۱؍۲۹۲،حدیث:۱۶۳۳) ایک اَور حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص اللہ کے خوف سے روئے حتیٰ کہ اُس کے آنسوؤں میں سے کچھ زمین پر ٹپک جائے، تو اُس کوقِیامت کے دن عذاب نہیں ہوگا۔(حاکم۴؍۲۸۹، حدیث: ۷۶۶۸؍۶۸) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام ہے: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رَوئی ہو، اور دوسری وہ جو اسلام کی اور مسلمانوں کی کُفَّار سے حِفاظت کرنے میں جاگی ہو۔ (ترمذی، ابواب فضائل الجہاد، باب ماجاء في فضل الحرس في سبیل اللہ، ۱؍ ۲۹۳، حدیث: ۱۶۳۹) ایک اَور حدیث میں ہے کہ: جو آنکھ اللہ کے خوف سے روئی ہو اُس پر جہنم کی آگ حرام ہے، اور جو آنکھ اللہ کی راہ میں جاگی ہو اُس پر بھی حرام ہے، اور جو آنکھ ناجائز چیز (مثلاً نامَحرَم وغیرہ) پر پڑنے سے رُک گئی ہو اُس پر بھی حرام ہے، اور جو آنکھ اللہ کی راہ میں ضائع ہوگئی ہو اُس پر بھی جہنم کی آگ حرام ہے۔(مسند احمد،حدیث:۱۷۲۱۳،۔۔۔۔۔۔۔۔) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص تنہائی میں اللہ کا ذکر کرنے والا ہو وہ ایسا ہے جیسے اَکیلا کُفَّار کے مقابلے میں چل دیا ہو۔(مسند أحمد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۷۲۱۳) (۱۷) عَن أَبِي هُرَیرَۃَص قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: یُنَادِي مُنَادٍ یَومَ القِیَامَۃِ: أَینَ أُولُوا الأَلبَابِ؟ قَالُوا: أَيُّ أُولِي الأَلبَابِ تُرِیدُ؟ قَالَ:الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللہَ قِیَاماً وَّقُعُوداً وَّعَلیٰ جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا، سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ عُقِدَ لَهُم لِوَاءٌ فَاتَّبَعَ القَومُ لِوَاءَ هُمْ، وَقَالَ لَهُمْ: اُدخُلُوهَا خَالِدِینَ.(أخرجہ الأصبهاني في الترغیب، کذا في الدر)