فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہٗ؟ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلَاہٗ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ أَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہٖ؟. (ترغیب عن البیهقي وغیرہ)ترجَمہ: قیامت میں آدمی کے قدم اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتے جب تک چار سوال نہ کرلیے جاویں: (۱)عمر کس مَشغلے میں ختم کی؟ (۲)جوانی کس کام میں خرچ کی؟ (۳)مال کس طرح کمایا تھا اورکس کس مَصرَف میں خرچ کیا تھا؟ (۴)اپنے علم پر کیا عمل کیا تھا؟۔ حضرت ابوالدرداء ص -جو ایک بڑے صحابی ہیں- فرماتے ہیں کہ: مجھے سب سے زیادہ اِس اَمر کا خوف ہے کہ قیامت کے دن تمام مجمعوں کے سامنے مجھے پکار کریہ سوال نہ کیا جاوے کہ: جتنا علم حاصل کیا تھا اُس پر کیا عمل کیا؟۔ خود نبیٔ کریم ﷺ سے کسی صحابیصنے دریافت کیا کہ: بدترین خلائق کون شخص ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: بُرائی کے سوالات نہیں کیا کرتے، بھلائی کی باتیں پوچھو، بدترین خَلائِق، بدترین عُلَما ہیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: علم دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ جو صرف زبان پر ہو، وہ اللہ تعالیٰ کااِلزام ہے اور گویا اُس عالِم پر حُجتِ تام ہے، دوسرے وہ علم ہے جو دل پر اثر کرے، وہ علمِ نافع ہے۔ حاصل یہ ہے کہ، علمِ ظاہری کے ساتھ علمِ باطن بھی حاصل کرے؛ تاکہ علم کے ساتھ قلب بھی مُتَّصِف ہوجائے؛ ورنہ اگر دل میں اُس کااثر نہ ہوتو وہ اللہ تعالیٰ کی حُجَّت ہوگا، اور قِیامت کے دن اُس پر مُؤاخَذہ ہوگا کہ: اُس علم پر کیا عمل کیا؟۔ اَور بھی بہت سی روایات میں اِس پر سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اِس لیے میری درخواست ہے کہ: مُبلِّغین حضرات اپنی اصلاحِ ظاہر وباطن کی پہلے فکر کریں، مَبادا اِن وعیدوں میں داخل ہوجائیں۔ اللہجَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہٗ اپنی رحمتِ واسِعہ کے طُفیل اِس سِیَہ کار کو بھی اصلاحِ ظاہر وباطن کی توفیق عطا فرماویں، کہ اپنے سے زیادہ بَدافعال کسی کو بھی نہیں پاتا، إلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللہُ بِرَحْمَتِہٖ وَاسِعَۃٍ. فصل رابع مَبذُول: مصروف۔پردہ دَرِی: بے عزتی۔ عِرضِ مُسلِم: مسلمان کی عزت۔عظیمُ الشّان ووَقیع: بڑی اور اہم۔ پردہ پوشی: عیب کو چھپانا۔ آبرو:عزت۔ آبرو ریزی: بے عزتی۔اِعراض: بے توجُّہی۔ مُنکَر: بُرائی۔ مَخفِی: پوشیدہ۔ عَلانِیہ: کھلَّم کھُلاَّ۔ حَتَّی الوَسَع: جہاں تک ہوسکے۔ مَبادا: ایسا نہ ہو۔ سابِقہ: اگلی۔ وُقوع: عمل۔اِفشا: اِظہار۔ تاب: برداشت۔دستِ مبارک:مبارک ہاتھ۔رَاوِی: روایت نقل کرنے والا۔مَبغُوض: ناپسندیدہ۔ (اِس فصل)میں بھی ایک خاص ونہایت اہم اَمر کی طرف حضراتِ مُبلِّغین کی توجُّہ مَبذُول کرانا مقصود ہے جو نہایت ہی اہم ہے، وہ یہ کہ تبلیغ میں بَسااوقات تھوڑی سی بے احتیاطی سے نفع کے ساتھ نقصان بھی شامل ہوجاتا ہے؛ اِس لیے بہت ضروری ہے کہ احتیاط کے ہر پہلو کا لِحاظ رکھا جائے۔ بہت سے