فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
سفربھی دُور کاتھا، اورموسم بھی اِس قدر سخت کہ گرمی کی اِنتہانہیں تھی، اور اِس کے ساتھ ہی مدینۂ طیبہ میںکھجور کے پکنے کا زمانہ زور پر تھا، کہ سارے باغ بالکل پکے ہوئے کھڑے تھے، اور کھجور ہی پر مدینۂ طیبہ والوں کی زندگی کا زیادہ دار ومَدار تھا، کہ سال بھرکی روزی کے جمع کرنے کاگویایہی زمانہ تھا؛ اِن حالات میں یہ وقت مسلمانوں کے لیے نہایت سخت امتحان کاتھا، کہ اِدھر اللہ کا خوف، حضور ﷺکا پنجشنبہ: جمعرات۔ مُہَیّا: تیار۔ نوبت بہ نوبت: باری باری سے۔ ارشاد جس کی وجہ سے بغیرجائے نہ بنتی تھی، اوردوسری جانب یہ ساری دِقَّتیں کہ ہردِقَّت مستقل روک تھی، بالخصوص سال بھر کی محنت اورپکے پکائے درختوں کا یوں بے یارو مددگار چھوڑ جانا جتنا مشکل تھا وہ ظاہرہے؛ مگراِس سب کے باوجود اللہ کا خوف اِن حضرات پر غالب تھا؛ اِس لیے بجُز منافِقین اورمعذورین- جن میں عورتیں اور بچے بھی داخل تھے، اور وہ لوگ بھی جوبہ ضرورت مدینۂ طیبہ میں چھوڑے گئے تھے، یاکسی قِسم کی سواری نہ مل سکنے کی وجہ سے روتے ہوئے رہ گئے تھے، جن کے بار ے میں ﴿تَوَلَّوْا وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ﴾ [توبہ: ۹۲] نازل ہوئی- اَورسب ہی حضرات ہم رِکاب تھے؛ البتہ تین حضرات بِلاعذرکے شریک نہیں تھے جن کاقصہ آئندہ آرہا ہے؛ راستے میں قومِ ثمود کی بستی پر گُزر ہوا، تو حضورِ اکرم ﷺ نے دامن سے اپنے چہرۂ انور کو ڈھانک لیا، اور اُونٹنی کو تیز کر دیا، اور صحابہ کو بھی حکم فرمایا کہ: ’’یہاں سے تیز چلو اورظالموں کی بستیوں میں سے روتے ہوئے گزرو، اوراِس سے ڈرتے ہوئے گزرو کہ تم پربھی خدانہ خواستہ وہ عذاب کہیں نازل نہ ہوجائے جو اُن پرنازل ہوا تھا‘‘۔ (تاریخ خمیس،۱۲۲ تا ۱۲۴) فائدہ: اللہ کا پیارا نبی اور لاڈلا رسول ﷺ عذاب والی جگہ سے ڈرتاہوا، خوف کرتا ہوا گزرتا ہے، اوراپنے جاں نِثاردوستوں کو-جواِس سخت مجبوری کے وقت میں بھی جاں نثاری کا ثبوت دیتے ہیں- روتے ہوئے جانے کاحکم فرماتا ہے، کہ خدانہ خواستہ وہ عذاب اُن پرنہ نازل ہوجائے، ہم لوگ کسی بستی میں زلزلہ آجائے تواُس کو سَیرگاہ بناتے ہیں، کھَنڈروں کی تفریح کو جاتے ہیں، اور رونا تو دَرکِنار، رونے کاخَیال بھی دل میں نہیں لاتے۔ (۹)تبوک میں حضرت کعب کی غیرحاضری اورتوبہ اِسی تبوک کی لڑائی میں معذورین کے علاوہ اَسّی سے زیادہ تو منافق انصار میں سے