فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جواب نفی میں نہیں تو اِثبات میں بھی مشکل ہے، اگر کوئی جماعت یا کوئی فرد اِس کے لیے اُٹھتا بھی ہے، تو اِس وجہ سے کہ بجائے اِعانت کے اُس پر اعتراضات کی اِس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ وہ آج نہیں تو کَل تھک کر بیٹھ جاتا ہے؛ حالاںکہ خیر خواہی کا مُقتَضا یہ تھا کہ اُس کی مدد کی جاتی، اور کوتاہیوں کی اصلاح کی جاتی، نہ یہ کہ خود کوئی کام نہ کیا جاوے، اور کام کرنے والوں کو اعتراضات کا نشانہ بناکر اُن کو کام کرنے سے گویا روک دیا جاوے۔ (۶)کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ. ترجَمہ: تم بہترین امت ہو کہ لوگوں کے( نفع رَسانی)کے لیے نکالے گئے ہو،تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کام سے منع کرتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ (بیان القرآن و ترجمہ عاشقی) فائدہ:مسلمانوں کا اَشرفُ النَّاس اور اُمَّتِ محمدیہ کا اشرفُ الاُمَم ہونا مُتعدَّد احادیث میں تصریح سے وارِد ہوا ہے، قرآنِ پاک کی آیات میں بھی کئی جگہ اِس مضمون کو صَراحۃً واِشارۃً بیان فرمایا گیا ہے، اِس آیتِ شریفہ میں بھی خیرِ اُمت کا اِطلاق فرمایا گیا ہے، اور اِس کے ساتھ ہی اُس کی علَّت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ، تم بہترین اُمت ہو؛ اِس لیے کہ اَمْر بِالمَعروف اور نَہِی عَنِ المُنکَر کرتے ہو۔ مُفسِّرین نے لکھا ہے کہ: اِس آیتِ شریفہ میں اَمْر بِالمَعروف اور نَہِی عَنِ المُنکَر کو ایمان سے بھی پہلے ذکر فرمایا؛ حالاںکہ ایمان سب چیزوں کی اصل ہے، بغیر ایمان کے کوئی خیر بھی مُعتبر نہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ، ایمان میں تو اَور اُمَمِ سابِقہ بھی شریک تھیں، یہ خاص خصوصیت جس کی وجہ سے تمام انبیاء عَلَیْهِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے مُتَّبِعِین سے اُمَّتِ محمدیہ کو تَفوُّق ہے وہ یہی اَمر بِالمعروف اور نَہِی عن المُنکَر ہے، جو اِس اُمت کا تَمغۂ امتیاز ہے، اور چوںکہ بغیر ایمان کے کوئی عملِ خیر معتبر نہیں؛ اِس لیے ساتھ ہی بطورِقید کے اِس کو بھی ذکر فرمادیا، ورنہ اصل مقصود اِس آیتِ شریفہ میں اُسی کا ذکر فرمانا ہے، اور چوںکہ وہی اِس جگہ مقصود بِالذِّکر ہے؛ اِس لیے اُس کو مُقدَّم فرمایا۔ اِس اُمت کے لیے تمغۂ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، اِس کا مخصوص اہتمام کیا جائے؛ ورنہ کہیں چلتے پھرتے تبلیغ کردینا اِس میں کافی نہیں؛ اِس لیے کہ یہ اَمر پہلی اُمَّتوںمیں بھی پایا جاتا تھا، جس کو ﴿فَلَمَّا نَسُوْا مَاذُکِّرُوْا بِہٖ﴾ وغیرہ آیات میں ذکر فرمایا ہے، امتیاز مخصوص اہتمام کا ہے، کہ اِس کو مستقل کام سمجھ کر دِین کے اَور کاموں کی طرح اِس میں مشغول ہوں۔ (۷) لَاخَیْرَ فِيْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوْفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ، وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً. ترجَمہ:عام لوگوں کی اکثر سَرگوشیوں میں خیر(وبرکت)نہیں ہوتی؛ مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ صدقہ خیرات کی، یا اَور کسی نیک کام کی، یا لوگوں میں باہم اصلاح کردینے کی ترغیب دیتے ہیں، (اور اِس تعلیم وترغیب کے لیے خُفیہ تدبیریں اور مشورے کرتے ہیں، اُن کے