فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن جو مُتوسِّط حیثیت کے لوگ ہیں، اوراپنے کو دِین دار بھی سمجھتے ہیں، وہ بھی اِس کی کوشش کرتے ہیں کہ جو خرچ اپنے عزیز، رشتے داروں میں یاکسی دوسری جگہ مجبوری سے پیش آجائے، اُس میں زکوۃ ہی کی نیت کرلیں۔ (۴)حضراتِ شیخین کاصدقے میں مقابلہ حضرت عمرص فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺنے صدقہ کرنے کاحکم فرمایا، اتفاقاً اُس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا، مَیں نے کہا: آج میرے پاس اتِّفاق سے مال موجود ہے، اگر مَیں ابوبکرصسے کبھی بھی بڑھ سکتاہوں توآج بڑھ جاؤںگا، یہ سوچ کر خوشی خوشی مَیں گھر گیا، اور جو کچھ بھی گھر میں رکھا تھا اُس میںسے آدھالے آیا، حضورﷺنے فرمایا کہ: ’’گھر والوں کے لیے کیاچھوڑا‘‘؟ مَیں نے عرض کیا کہ: چھوڑآیا، حضورﷺنے فرمایا: ’’آخر کیا چھوڑا‘‘؟ مَیں نے عرض کیا: آدھا چھوڑ آیا۔ اور حضرت ابوبکر صدیقص جو کچھ رکھا تھا سب لے آئے، حضورﷺنے فرمایا: ’’ابوبکر! گھروالوں کے لیے کیاچھوڑا‘‘؟ اُنھوںنے فرمایا: اُن کے لیے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو چھوڑ آیا، یعنی: اللہ اور اُس کے رسولِ پاک ﷺ کے نام کی برکت اور اُن کی رَضااور خوشنودی کو چھوڑ آیا۔ حضرت عمرص کہتے ہیں: مَیں نے کہا: حضرت ابوبکرص سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (ابوداود، کتاب الزکوٰۃ، باب الرخصۃ --------- ۱؍ ۲۳۶) (اسد الغابہ، ۳؍ ۲۱۸) مُستَحسَن: پسندیدہ۔ مَندوب: اچھا۔وُسعت: گنجائش۔ اِعانتیں: مدد۔ فائدہ: خوبیوں اورنیکیوں میں اِس کی کوشش کرنا کہ دوسرے سے بڑھ جاؤں، یہ مُستَحسَن اور مَندوب ہے، قرآنِ پاک میں بھی اِس کی ترغیب آئی ہے۔ یہ قصہ غزوۂ تبوک کا ہے، اُس وقت میں حضورِاکرم ﷺنے چندے کی خاص طور سے ترغیب فرمائی تھی، اورصحابۂ کرام ث نے اپنے اپنے حوصلے کے موافق، بلکہ ہِمَّت ووُسعت سے زیادہ اِعانتیں فرمائیں، جن کا ذِکر باب ۲؍ قصہ ۹؍میں بھی مختصر طور سے گزرا ہے۔ جَزَاہُمُ اللہُ عَنَّا وَعَنْ سَائِرِالْمُسْلِمِیْنَ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ. (۵)صحابۂ کرام ث کادوسروں کی وجہ سے پیاسے مرنا جاںکَنی: نَزع کی حالت۔ جاںبہ حق: فوت۔ حضرت ابوجَہم بن حُذیفہ ص کہتے ہیںکہ: ’’یرمُوک‘‘ کی لڑائی میں مَیں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میںنکلا، کہ وہ لڑائی میںشریک تھے، اور ایک مَشکیزہ پانی کا مَیں نے اپنے ساتھ لیا، کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں توپانی پِلائوں،