فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کیفیت ہے جواَلفاظ وعِبارات سے بالاتر ہے، محبت ہی ایک ایسی چیز ہے جودل میں بس جانے کے بعدمحبوب کو ہر چیز پرغالب کردیتی ہے، نہ اُس کے سامنے ننگ وناموس کوئی چیز ہے نہ عزت وشرافت کوئی شیٔ۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے لُطف سے اور اپنے محبوب کے وسیلے سے اپنی اور اپنے پاک رسول ﷺکی محبت عطافرمائیں، توہرعبادت میں لَذَّت ہے اور دِین کی ہر تکلیف میں راحت۔ (۱)حضرت ابوبکر کا اعلانِ اسلام اورتکلیف حَتَّی الوَسَع: جہاں تک ہوسکے۔ مَخفی: پوشیدہ۔اَذِیَّت: تکلیف۔ اِخفا: پوشیدہ رکھنے۔ مُشرَّف بہ اِسلام: اسلام سے عزت پانا۔ شَرافت: بزرگی۔ مُسلَّم: مانی ہوئی۔ لہو لُہان: خون میں لَتھڑے ہوئے۔ تردُّد: شک۔ بدولت: وجہ سے۔ لَے: آواز۔بے تابانہ: بے چین کرنے والی۔ تحمُّل: برداشت۔ بے تَحاشا: بے حد۔ آمد و رفت: آنا جانا۔ مَبادا: ایسا نہ ہو۔اَذِیَّت: تکلیف۔ عیش وعِشرت، نِشاط وفَرحت: خوشی۔ ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے اسلام کوحَتَّی الوَسَع مَخفی رکھتا تھا، حضورِ اقدس ﷺکی طرف سے بھی -اِس وجہ سے کہ اِن کو کُفَّار سے اَذِیَّت نہ پہنچے- اِخفا کی تَلقِین ہوتی تھی، جب مسلمانوں کی مقدار اُنتالیس(۳۹) تک پہنچی تو حضرت ابوبکر صدیق صنے اِظہار کی درخواست کی، کہ کھلَّم کھُلَّا عَلی الاِعلان تبلیغ کی جائے، حضورِ اقدس ﷺنے اوَّل اِنکار فرمایا؛ مگر حضرت ابوبکرصدیق ص کے اِصرار پر قَبول فرمالیا، اور اُن سب حضرات کو ساتھ لے کر مسجدِ کعبہ میں تشریف لے گئے، حضرت ابوبکر صدیق ص نے تبلیغی خطبہ شروع کیا، یہ سب سے پہلا خطبہ ہے جو اِسلام میںپڑھا گیا، اور حضورِ اقدس ﷺکے چچا سَیِّدالشُّہَداء حضرت حمزہ ص اِسی دن اسلام لائے ہیں، اور اِس کے تین دن بعد حضرت عمرص مُشرَّف بہ اِسلام ہوئے ہیں؛ خطبے کاشروع ہونا تھا کہ چاروں طرف سے کُفَّار ومُشرِکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، حضرت ابوبکرصدیق ص کو بھی باوجودیکہ مکۂ مکرمہ میں اُن کی عام طور سے عظمت وشَرافت مُسلَّم تھی، اِس قدر مارا کہ تمام چہرۂ مبارک خون میں بھرگیا، ناک، کان سب لہو لُہان ہوگئے تھے، پہچانے نہ جاتے تھے، جُوتوں سے، لاتوں سے مارا، پاؤں میں روندا، اور جو نہ کرناتھا سب ہی کچھ کیا، حضرت ابوبکرصدیق ص بے ہوش ہوگئے، ’’بنوتَیم‘‘ یعنی حضرت ابوبکرصدیق ص کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی، وہ وہاں سے اُٹھاکر لائے، کسی کو بھی اِس میں تردُّد نہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ص اِس وَحشِیانہ حملے سے زندہ بچ سکیںگے، بنو تَیم مسجد میں آئے اور اعلان کیا کہ: ’’حضرت ابوبکر صدیق ص کی اگر اِس حادِثے میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ اُن کے بدلے میں عُتبہ بن رَبیعہ کو قتل کریںگے‘‘۔ عُتبہ نے حضرت صدیقِ اکبرص کے مارنے میں بہت زیادہ بد بختی کا اظہار کیاتھا، شام تک حضرت ابوبکر ص کو بے ہوشی رہی، باوجود آوازیں دینے